April 18, 2011

گندم کی کٹائی اور حکومتی ذمہ داریاں


اسلام آباد (سید محمد عابد) ملک کے بیشتر حصوں میں گندم کی کٹائی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے اور ایک اندازے کے مطابق رواں سال پاکستان میں گندم کا مجموعی پیداواری ہدف دو کروڑ پچاس لاکھ ٹن ہے، جس میں پنجاب سے ایک کروڑ بانوے لاکھ ٹن، سندھ سے چھتیس لاکھ، خیبر پختون خواہ سے بارہ لاکھ اور بلوچستان سے نو لاکھ ٹن گندم شامل ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے کہ گندم کی خریداری مہم بیس اپریل سے شروع کردی جائے گی اور اس مقصد کےلئے صوبہ بھر میں تین سو پچھترخریداری مراکز قائم کردیئے گئے ہیں، جبکہ کاشتکاروں میں باردانہ کی تقسیم جلد شروع کردی جائے گی اور مڈل مین سے گندم ہرگز نہیں خریدی جائے گی۔ انہوںنے کہا ہے کہ گندم ذخیرہ کرنے کےلئے اس سال زیادہ سے زیادہ ”سیلوز“ طرز کے جدید گودام بھی تعمیر کئے جائیں گے تاکہ گندم کی فصل ضائع نہ ہو۔
محکمہ زراعت کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں گندم کی فصل میں بہتری آئی ہے جس سے پیداواری ہدف آسانی سے پورا ہونے کی توقع ہے۔ کسان بورڈ کے سیکرٹری محمد رمضان نے ٹیکنولوجی ٹائمز کو بتایا کہ اس سال بھی کسانوں کو پٹواریوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، جبکہ اس سیزن میں حکومت کسانوں سے سات روپے فی من ڈیلوری چارجز وصول کررہی ہے جو کہ اس سے پہلے وصول نہیں کئے جاتے تھے جس سے کسانوں کو مجموعی طور پر چھبیس کروڑ چھپن لاکھ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ دوسری جانب ایگری فورم پاکستان کے چیئرمین ابراہیم مغل کا کہنا ہے کہ اس سال گندم کو ہدف سے کم رقبے پر کاشت کیا گیا، جس کے باعث پیداوار بھی ہدف سے دس سے تیرہ لاکھ ٹن کم ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گندم کی کٹائی کے دوران کسان متعدد مسائل میں گھر جاتا ہے۔ یوں تو حکومت بیس اپریل سے گندم کی خریداری مہم شروع کر رہی ہے، لیکن اس ضمن میں کسانوں کو اب تک مطلوبہ تعداد میں باردانہ فراہم نہیں کیا جاسکا۔ انہوں نے بتایا کہ شدید معاشی دباو ¿ کے باعث ملک کے پچانوے فیصد چھوٹے اور درمیانے درجے کے کسان ایسے ہیں جو حکومتی خریداروں کا انتظار کرنے کے بجائے اپنی فصل کم قیمت پر فروخت کردیتے ہیں۔
گندم کی کٹائی کے بعد پیش آنے والے مسائل میں سب سے بڑا اور اہم مسئلہ گندم کو سنبھالنے کا ہے۔ فصل کاٹنے کے بعد کسان گندم کو فوری طور پر کھیت سے منتقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ جتنی دیر گندم کھیت میں پڑی رہے گی اتنا ہی کسانوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا، اسلئے اکثر کسان مجبوراً اپنی گندم سستے داموں آڑھتیوں کو بھی فروخت کردیتے ہیں۔ بیشتر کسانوں نے اس عمل پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر سال گندم کی خریداری میں حکومت کے غیر سنجیدہ روئیے کے باعث وہ ایسا کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
ایک کاشتکار عصمت شاہ کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے گندم کا خریداری ہدف کم یا زیادہ ہونے کی وجہ سے کاشتکار برادری براہ راست متاثر ہوتی ہے، کیونکہ ہدف کم ہونے کی صورت میں انہیں فصل کا صحیح معاوضہ نہیں ملتا۔ انہوں نے بتایا کہ صوبہ پنجاب میں کسانوں کو گندم فروخت کرنے کیلئے دیہاتی علاقوں میں قائم خریداری مراکز سے رابطہ کرنا پڑتا ہے، لیکن اس کی قیمت انہیں دوردراز شہری علاقوں میں قائم بینک آف پنجاب سے ادا کی جاتی ہے، جہاں ہر کسان کے انفرادی اکا ¶نٹ کی موجودگی بھی لازمی ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ یہ سب پریشانیاں حکومت کی طرف سے عطاءکی گئی ہیں ورنہ اس کام کیلئے اکاونٹ کھلوانا ضروری نہیں ہے۔
حکومت کی طرف سے کاشتکاروں کیلئے فصل کی بوائی سے لیکر کٹائی اور پھر اسکی فروخت تک کے مراحل میں بہتری لانے کیلئے ہر سال مناسب اقدامات اٹھانے کے تو دعوے کئے جاتے ہیں لیکن زمینی حقائق اس کی بہرحال تصدیق نہیں کرتے، جس کی وجہ سے کسان ہر بار نئی امید لے کر آئندہ سال کا انتظار کرتے ہیں۔
موجودہ دور میں بھی گندم کی کٹائی کےلئے ملک بھر میں درانتی کا استعمال کیا جاتا ہے جو کہ حسب روایت فصل کی کٹائی کا موسم آتے ہی مہنگی ہو جاتی ہے اور اس طریقہ کار سے نہ صرف فصل کاٹنے میں زیادہ صرف ہوتا ہے بلکہ فصل کا کچھ حصہ ضائع بھی ہوجاتا ہے، جبکہ درانتیوں کی بہ نسبت ہارویسٹر کم وقت میں زیادہ فصل کی کٹائی کرتا ہے اور اس طرح فصل بھی ضائع یا خراب نہیں ہوتی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خوراک کی بڑھتی ہوئی طلب اور کاشتکاروں کے مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں ہارویسٹر اور تھریشر کے ذریعے فصل کی کٹائی اور صفائی کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

No comments:

Post a Comment