April 18, 2011

پلاسٹک بیگ- ما حول کا کےنسر



نگار علی
کرتاجارہا ہے ویسے ہی اپنے لیے آسائش بھی پیدا کرتا جارہا ہے لیکن جب ہم اس کی ایجادات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ترقی کی اس دوڑ میں انسان نے اپنے ماحول کو بھی آلودہ کیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ہر روز لاکھوں ٹن فالتو پلاسٹک بیگ ماحول میں پھینکے جاتے ہیں جو انسانی زندگی کے ساتھ حیوانی اور آبی حیات کےلئے انتہائی خطرناک ہےں۔ ایسا ہی پاکستان میں کیا جارہا ہے، ہماری بے احتےاطی کی وجہ سے پاکستان کا ماحول بہت ہی آلودہ ہوتا جا رہا ہے۔
پلاسٹک ایک پولیمر ہے جو کہ ایک یا کئی مختلف کیمیائی اجزاءسے مل کر تیار ہوتا ہے۔ یہ دو طرح کے ہوتے ہیں؛ ایک قدرتی جو کہ درختوں اور جانوروں سے حاصل ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جن کو ہم لیبارٹریوں یا فیکٹریوں میں تیار کرتے ہیں۔
پلاسٹک ایک سیال مادہ ہے، اس کو آسان طریقے سے کسی بھی شکل و صورت میں ڈھالا یا بناےا جاسکتا ہے، نیز اس کو کسی بھی رنگ میں رنگا بھی جاسکتا ہے۔ پلاسٹک کو نرمی اور ملائم کی کسی بھی حد تک پہنچایا جا سکتا ہے، اس کی اسی خصوصیت کی وجہ سے اس کو سستے سے سستے پلاسٹک لفافوں اور دوسری بہت سی کار آمد چیزوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
پلاسٹک کی تھیلیوں میں ایک زہریلا مادہ کیڈیم کا عنصر شامل ہوتا ہے جو کہ خوراک میں زہریلے مادے کو پیدا کردیتا ہے، جس کی وجہ سے ہم خالص غذا سے محروم ہوجاتے ہیں اور کئی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں، مگر ہمارے ملک میں نہ عوام سنجیدہ ہیںاور نہ حکومت کو اس بات کااحساس ہے کہ پلاسٹک بیگز خاص طور پر کالی تھیلیاں بنی نوع انسان کے لیے کس قدر نقصان دہ ہیں۔
عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ پلاسٹک بیگ تیار کرنے والے کارخانوں میں کام کرنےو الے افراد سخت اذیت کا شکار ہیں، ان سے کام لینے والے فیکٹری مالکان کو ان کی صحت وبقا سے کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی حالانکہ محکمہ تحفظ ماحولیات اور لیبرڈپارٹمنٹ کے لیبر افسران بھی موجود ہیں۔ اس کے باوجود اس قسم کی اشیا ءبنانے والی فیکٹریوں میں مالکان اپنے اسٹاف کو نہ تو ماسک دیتے ہیں ، نہ دستانے دیتے ہیں اور نہ ہی ان فیکٹریوں میں ہوا اور روشنی کا مناسب انتظام ہوتا ہے۔
پلاسٹک کو ری سائیکل کرتے وقت اس سے اڑنے والے مضر صحت اجزا انسانی صحت اور زندگی کے لیے کینسر جیسے امراض کا سبب بن رہے ہیں۔ پلاسٹک بیگز بنانے والے کارخانوں میں کچرے کو اٹھاکر محفوظ طریقے سے لے جانے کے بجائے وہیں آگ لگا دی جاتی ہے جس سے اٹھنے والی زہریلی گیسز بلڈ کینسر، پھیپھڑوں اور سانس کے امراض میںاضافے کا باعث بن رہی ہے۔
سنہ ۵۹۹۱ میں پاکستان میں قانونی طور پر پلاسٹک بیگز بنانے اور فروخت کرنے پر پابندی لگائی گئی تھی جس کے تحت تین سو مائیکرون سے کم موٹائی یا وزن والی تھیلیوں کی تیاری، فروخت اور استعمال کو جرم قرار دیتے ہوئے چھ ماہ کی قید یا پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزائیں موجود ہیں تاہم بہت کم لوگ اس قانون کی پاسداری کرتے ہیں۔
پاکستان میں پلاسٹک کا بہت زیادہ استعمال ہے، جبکہ پلاسٹک کو قدرتی طریقے سے ختم ہونے میں ایک لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے۔اےک اندازے کے مطابق پچاس کی دہائی میں پلاسٹک نے عام زندگی میں قدم رکھا اور اب تک اسکی ایک بلین ٹن مقدار پیدا کی جا چکی ہے۔
لاپروائی سے کیمیائی اشیا ءکا پھیلاو ¿اور غلاظت کا پھیلنا ، ہمارے ماحول کو آلودہ کرکے ہماری صحت ، پانی ، ہوا، زمین اور زمین پر بسنے والے چرند و پرند حیوانات اور انسان حتیٰ کہ درختوں تک کو شدےد نقصان پہنچا رہی ہےں۔
لوگ پلاسٹک بےگ کو گلی کوچوں، سڑکوں ، نالیوں ، ندی نالوں، دریاو ¿ں ، باغیچوں حتیٰ کہ اپنے صحن میں بِلا سوچے سمجھے پھینک دےتے ہیں۔ یہی ان کا بے تحا شا پھینک دےنا ہمارے ماحول کی آلودگی کا سب سے بڑا سبب بن چکا ہے۔ ہمارے استعمال میں آنے والا پلاسٹک بیگ اگرچہ ہمارا سستا دوست ہے لیکن ہماری ناسمجھی اور غفلت کی وجہ سے ہمارا یہی سستا دوست ہمارا سب سے بڑا دشمن بنتا جارہا ہے۔
ملک کے مختلف شہری علاقوں میںپلاسٹک بیگ سے نالیوں و سیورج کا بند ہونا ایک عام سی وبا بن گیا ہے۔ گندے پانی کے نکاس کے بند ہونے اور دباو ¿ سے سیورج لائن پھٹ جاتی ہے جس کی وجہ سے تمام علاقے میں بدبو، گندگی اور مختلف بیماریوں پھےلتی چلی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ برسات کے موسم کی ذرا سی بارش بھی ایک سیلاب کا رخ اختیار کرلیتی ہے۔
ہماری ندیاں ، جھیلیں اور دریابھی پلاسٹک بیگ کے ذخیرے بن رہے ہیں جس سے آبی نباتات اور حیوانات کا بری طرح متاثر ہونا لازمی سی بات ہے۔
پلاسٹک چونکہ ایک نہ سڑنے والی شے ہے ، اس لئے یہ زمین کی ساخت اور ذرخیزیت کو شدید طرح برباد کر دیتی ہے۔ یہ زمین کی سانس کو بند کرکے اس کو منجمد کر دیتا ہے اور پیڑ پودوں کو زمین سے جو غذا اور دوسرے اجزاءملنے چائےے تھے ا ±ن کی ترسیل میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ نتیجتاً پیڑ پودے پھلتے پھولتے نہیں ہیں۔
زمین کی پیداواری صلاحیت کمزور اور آہستہ آہستہ مردہ پڑجاتی ہے۔ بارش کا پانی پلاسٹک بیگ کی وجہ سے زمین کے اندر جذب نہیں ہوتا ہے۔ اسی لئے ہمارے جنگلات بھی بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ نشیبی علاقوں کی زمینیں اور زرعی زمینیں پلاسٹک بیگ کی وجہ سے اپنی ساخت اور صلاحےت کھو دیتی ہے، اور ہماری پیداوار کم ہوتی جارہی ہے۔
سڑکوں، گلی کوچوں، نالیوں اور کھلی جگہوں پر پھینکے ہوئے پلاسٹک بیگ ہمارے مویشی بھی کھالیتے ہیںجو ان کےلئے جان لیوا بھی ثابت ہوا ہے۔ حال ہی میں ایک ویٹرنری ہسپتال میں جب ایک بیمار گائے کا آپریشن کیا گیا تو اس کے پیٹ سے کئی کلو وزنی پلاسٹک کے تھیلے نکلے۔
اسی طرح ایک اورمردہ گائے کا آپریشن کرکے اس کے پیٹ سے چالےس کلو گرام پلاسٹک بیگ نکالے گئے، نہ جانے کتنے مویشی اسی طرح سے پلاسٹک کھا کر مرتے ہوں گے ۔
آئیے ! ہم یہ عہد کریں کہ پلاسٹک بیگوں کا استعمال نہ ہم خود کریں نہ ہی دوسروں کو کرنے دیںگے۔ آج سے ہی روزمرہ کی چیزوں کو لانے لےجانے کیلئے ہم پلاسٹک کے متبادل بیگوں کا استعمال کریں، جو ہماری صحت اور ہمارے ماحول کو نقصان نہ پہنچائیں۔ ایسا کرنے سے ہی ہم اپنے ماحول کو صاف و شفاف اور پاک رکھ کر اطمینان کی سانس لے کر مستقبل کو سنوار سکیں گے۔

No comments:

Post a Comment