April 18, 2011

شعبہ زراعت اور قدرتی آفات


تحریر: صائمہ کرن
سال 2010ءمیں شعبہ زراعت کے لےے دےگر گزشتہ برسوں کی طرح پس ماندگی اور بدحالی کا سال ثابت ہوا۔ صوبوں کے درمےان پانی کی تقسےم کے معاملے پر تنازع اےک مستقل مسئلہ چلا آرہا ہے۔ ملک کی پینسٹھ سے ستر فی صد قابلِ کاشت اراضی نہری نظام سے سےراب ہورہی ہے۔ اگرچہ ماضی میں پاکستان اور بالخصوص پنجاب کے نہری نظام کو دنےا بھر میں اےک خصوصےت اور اہمےت حاصل رہی ہے۔ لےکن حالےہ بد ترےن سےلاب نے نہ صرف اسے نےست ونابود کر کے رکھ دےا ہے بلکہ مستقبل کے لےے بھی بحرانی صورتِحال کے اندےشوں کو جنم دےا ہے۔ پاکستان میں فصلوں کی انشورنس کا نظام 2008ءمیں متعارف کرواےا گےا۔ لےکن کاشتکاروں کو قرضہ جات فراہم کرنے والے سب سے بڑے نےٹ ورک ہے، جس میں زرعی ترقےاتی بےنک لمےٹےڈ کا شمار ہوتاہے۔ انشورنس سکےم کا آغاز میں بوجوہ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کےا۔ جس کے باعث قدرتی آفات، سےلاب اور بےمارےوں کی زد میں آنے والی فصلوں کے معاملہ پر کسان کو تحفظ حاصل نہ ہو سکا۔
2010ءمیں ذخےرہ شدہ گندم کی بڑی مقدار کے سےلابی رےلے میں بہہ جانے کے باعث ہزاروں کاشتکار گندم نہ اُگا سکے، اگرچہ حکومتِ پنجاب نے کاشتکاروں کو فی اےکڑ کی شرح سے کھاد اور بےج فراہم کےے، لےکن ےہ بات سمجھ سے بالاتر رہی کہ انہےں بوائی کے وقت ڈی اے پی کھاد کے بجائے ےورےا کھاد فراہم کی گئی جس کی بوائی کے دوران قطعی ضرورت نہےں ہوتی۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق حالےہ سےلاب سے کپاس کی فصل بدترےن سےلاب سے دوچار ہوئی، جس کے نقصان کا تخمےنہ ایک سو ستر ارب روپے لگاےا گےا ہے، جبکہ دےگر فصلوں میں کھاد، دالےں اور چاول شامل ہےں۔ لائےواسٹاک بھی، جو شعبہ زراعت کاسب سےکٹر ہے، سےلاب کی تباہ کارےوں سے محفوظ نہےں رہا۔ وفاقی وزارتِ خوراک وزراعت اور لائےوسٹاک کے اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں ساڑھے چار لاکھ سے زاہد چھوٹے، بڑے جانور ہلاک ہوئے، جس سے نہ صرف دودھ اور گوشت کی کمی ہوئی، بلکہ متاثرہ اور بےمار جانوروںکی تعداد اموات سے کہےں زےادہ ہونے کے باعث ان کی پےداواری صلاحےت بری طرح متاثر ہوئی۔ ناکافی حکومتی اقدامات لائےو اسٹاک کی بحالی کے لےے موئثر ثابت نہ ہو سکے۔ حکومت نے موےشوں کی ہلاکتوں اور لائےو سٹاک فارمز کے نقصانات کے ازالے کے لےے کسی سطح پر اقدامات نہےں اٹھائے۔ لائےو سٹاک سےکٹر اےک طوےل عرصہ گزرنے کے باوجود صورتِ حال کا حقےقی معنوں میں ادراک کرنے میں ناکام ہے۔
گندم، دالےں، خوردنی تےل اور دےگر زرعی اجناس پر مشتمل درآمدات ڈےڑھ سو ارب روپے سالانہ سے زےادہ ہے اور ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جو کسان، کاشتکار، ملکی زراعت اور حکومت کے لےے سنگےن چےلنج ہے۔ جاگےرداری نظام کا تسلسل چھوٹے کاشتکاروں اور زراعت کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور حکومتی سطح پر جب تک اس مسئلے کا حل تلاش نہےں کرلےا جاتا، زرعی پسماندگی کا جاری سفرختم نہےں ہو سکے گا۔ سرکاری اراضی سمےت بڑے زمےن داروں سے زمےن واپس لے کر موئثر اسکےم شروع کی جائے۔
سبزےوں اور پھلوں کی برآمد کی حوصلہ افزائی، پانی کے زےال پر قابو پانے، غےرمعےاری، مہنگی، ملاوٹ شدہ پےٹی سائےڈبرآمد، تےار اور فروخت کنند گان کے خلاف سخت ترےن کاروائی، فلےٹ پاور رےٹ کی بحالی، کسان دوست پالےسی، سےم وتھور کی روک تھام، زرعی اجناس کی جلد اور بروقت امدادی قےمتوں کے تعےن سے زراعت کی ترقی کے سفر کا آغاز ممکن ہے۔

No comments:

Post a Comment