May 30, 2011

حقیقت کائنات


انیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں جدید سائنسی نظریات نے جنم لیا۔ آلات کی حیرتناک رسائی اور لامحدود کائناتی وسعتوں اور ایٹمی ساخت کی باریک و عمیق گہرائیوں کو ماپنے کی صلاحیت نے ، نیز اس دور کے پیدا ہونے والے نکتہ رس اور ذہن انسانی کی قوت تصور کی عمیق تر گہرائیوں تک پہنچنے والے سائنسدانوں نے لا متناہی وسیع و عریض کائنات اور ناقابل یقین باریکی رکھنے والی ایٹمی دنیا میں واضح طور پر دو یکسر مختلف فطرتوں کی حکمرانی کا مشاہدہ کیا۔یہ مشاہدات سائنسی نظریات، ریاضی کی مساوات اور حسابات کے علی الرغم تھ۔ اس صورت حال نے سائنسدانوں کو ذہنی کسرت کرنے پر مجبور کیا اور سائنسی کانفرنسوں میں آئین اسٹائین اور شروڈنگر جیسے جید سائنسدانوں کے درمیان گرما گرم مباحث کو جنم دیا۔
اس تنازع نے سائنس کی دنیا کو مجبور کیا کہ وہ ایک وحدانی نظریے کی تلاش کرے جو ساری کائنات کو بشمول ذرات و آفاق ایک وحدت میں جوڑ سکے۔ اور اس کائنات کے فہم کو ایک منطقی بنیاد فراہم کرے۔ یہ دوڑ ابھی تک جاری ہے۔ اس دوڑ کے نتیجے میں ہونے والی سائنسی کاوشیں ” اسٹرنگ تھیوری” کے عنوان کے تحت کسی ایک نظریہ کے بجائے حیرت انگیز طور پر پانچ مختلف نظریات پر منتج ہوئیں! جس میں سے ہر ایک کسی محدود مخصوص طبعی صورتحال کا احاطہ کرتی ہے اور ریاضیاتی نمونہ (میتھمٹکل ماڈل) سے اسے ثابت بھی کرتی ہے۔ ریاضیاتی رابطوں کا ایک نظام ان نظریات کو بحر حال ایک واحد نظام کی صورت میں آپس میں جوڑتا ہے، جسے ایم۔تھیوری کہا جاتا ہے۔ کیا یہی نظام بذات خود آخری نظریہ ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ایم سے کیا مراد ہے یہ بھی کسی کو نہیں معلوم! کسی بھی نظریہ کے لیےَ کوئی حتمی مشاہداتی ثبوت ابھی تک نہیں مل سکا ہے۔
مصنفین اسٹیفن ہاکینگ اور لیو نارڈ ملو ڈینو کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب دی گرانڈ ڈیزائین مطبوعہ2010ءمیں اب تک کی معلوم دریافتوں، مشاہدات اور ریاضیاتی نمونوں (میتھمیٹکل ماڈل) کی روشنی میں کائنات کی طبعی حقیقت کے تصور کو پیش کیا ہے، 2010ءکے اس جدید سائنسی تصور پر ذرا غور فرمائیے۔ایک ہی طبعی صورتحال کے مختلف طریقوں سے مختلف بنیادی عناصر اور تصورات کو استعمال کرتے ہوئے (ریاضیاتی) نمونے بنائے جا سکتے ہیں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ کائنات کو سمجھنے کے لیئے ہمیں مختلف طبعی صورتحال میں مختلف نظریات کو استعمال کرنا پڑے ۔ ہر نظریہ، حقیقت کے بارے میں اپنا ذاتی نسخہ (ورڑن) رکھ سکتا ہے۔ نمونہ پہ منحصر حقیقت شناسی کی رو سے یہ تنوع قابل قبول ہے۔ کسی بھی نسخہ کو کسی دوسرے نسخہ سے زیادہ حقیقی نہیں کہا جا سکتا۔ فطرت کے ایک نظریے کے لیئے نہ تو یہ طبیعیات داں کی روایئتی توقع ہے اور نہ ہی یہ ہمارے روز مرہ کے تصور حقیقت کی نمائندگی کرتا ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ کائنات کے اطوار اسی طرح کے ہوں! یہ ایک و حدانی نظریہ ( تھیوری آف یونیفیکیشن) کے خیال سے دستبردار ہونے کا اعتراف ہے، جس کی تلاش آج سے ستریا اسی سال پہلے شروع ہوئی تھی۔ ایک نئی قسم کی حقیقت شناسی کی تعریف ایجاد کی گئی ہے جسے نمونہ پر منحصر حقیقت کا نام دیا گیا ہے۔ اکثر لوگ یقین رکھتے ہیں کہ معروضی حقیقت وجود رکھتی ہے اور یہ کہ ہمارے حواس اور ہماری سائنس مادی دنیا سے متعلق معلومات براہ راست ترسیل(منتقل) کرتے ہیں ۔کلاسیکی سائنس اس عقیدے پہ قائم ہے کہ ایک بیرونی دنیا وجود رکھتی ہے جس کی خصوصیات معین ہیں اور مشاہدہ کرنے والے کے ادراک سے آزاد ہیں ۔ فلسفہ میں اس عقیدہ کو حقیقت شناسی کہا جاتا ہے۔ایک امکان یہ ہے کہ حقیقت کا تصور حقیقت کا ادراک کرنے والے کے ذہن پر منحصر ہو سکتا ہے۔ یہ نقطہ نظر باریک فرق کے ساتھ حقیقت مخالف، فلسفئہ تصوریت ،وغیرہ کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔
ان فلسفوں کے مطابق، جس دنیا کو ہم جانتے ہیں وہ حواس خمسہ کے ذریعے حاصل کی گئی معلومات(اشارات) کو خام مال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے انسانی ذہن سے بنی ہے۔ اور ہمارے دماغ کی تعبیری ساخت کے ذریعے متشکل ہوئی ہے۔ اس نقطہ نظر کا قبول کرنا مشکل ہو سکتا ہے ، لیکن اس کا سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ سائنس کی یہ دریافت کہ تمام اشیاءاور روشنی بہت چھوٹے ذرات جیسے الیکٹران اور فوٹان سے مل کر بنے ہیں، جنہیں ہم براہ راست نہیں دیکھ سکتے، اور اس دنیا میں وہ طبعی قانون لاگو ہی نہیں ہیں جنہیں ہم نیوٹن کے توسط سے کلاسیکی سائنس میں جانتے ہیں۔ اس باریک دنیا میں ذرات کا نہ کوئی یقینی جائے وقوع ہے اور نہ کوئی یقینی رفتار یہاں تک کہ کئی صورتحال میں وہ اپنا ذاتی وجود ہی نہیں رکھتے جب تک کہ ایک اجتماع کا حصہ نہ ہوں۔ اس کے علاوہ جدید سائنس نے ماضی کے تصور کو بھی لپیٹے میں لے لیا ہ۔ کلاسیکی نظریہ سائنس میں ماضی ایک واضح اور معین واقعات کے سلسلے کے طور پر اپنا وجود رکھتا ہے۔ لیکن جدید سائنس(طبعیات) کی رو سے ماضی بھی مستقبل کی طرح ،غیر معین ہے اور ایک ممکنہ واقعات کے مجموعے کی حیثیت رکھتا ہے۔یہاں تک کہ کائنات کا بھی کو ئی ایک ماضی یا تاریخ نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جدید سائنس(کوانٹم فزکس)، کلاسیکل سائنس کے مقابل ایک مختلف حقیقت کے وجود پہ دلالت کر تی ہے یہ اس کے باوجود ہے کہ کلاسکل سائنس ہمارے وجدان سے ثابت ہوتی ہے اور اب بھی عمارتوں اور پلوں کی تعمیر میں ہمارے خدمت کر رہی ہے۔
یہ مثالیں ہمیں نتیجے کے طور پر ایک اہم ڈھانچہ فراہم کرتی ہیں جس سے جدید سائنس کی ترجمانی کی جا سکتی ہے۔ ہمارے خیال میں سوچ اور نظریہ سے آزاد کوئی تصور حقیقت نہیں ہے۔ اس کے بجائے ہم ایک اور نقطہ نظر اپنائیں گے جسے ہم نمونہ پہ منحصر حقیقت کہیں گے۔ آئیڈیا یہ ہے کہ طبعی نظریہ یا دنیا کی تصویر ایک نمونہ ہے( میتھمٹکل ماڈل، عام طور سے) اور ایک قوانین کا سیٹ اس کے عناصر کو مشاہدے سے مربوط کرتا ہے۔ نمونہ کی بنیاد پر منحصر حقیقت کی تعریف کے مطابق یہ پوچھنا کوئی معنی نہیں رکھتا کہ کیا نمونہ حقیقی ہے؟! بلکہ یہ پوچھنا ہوگا کہ کیا نمونہ مشاہدے کے موافق ہے؟ اگر دو مختلف نمونے مشاہدے کے موافق ہو جا ئیں تو کوئی ایک دوسرے سے زیادہ حقیقی نہیں سمجھا جائے گا۔ کسی بھی نمونہ کو کوئی بھی استعمال کر سکتا ہے اگر وہ آسانی سے کسی زیر غور صورتحال میں استعمال ہو سکتا ہو۔
حقیقت کی ایک نئی تعریف ایجاد کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہی ہمارا سوال ہے۔ اس کی ظاہری اور وقتی وجہ صاف ہے۔ پانچوں اسٹرنگ تھیوری اپنا اپنا ریاضیاتی ثبوت رکھتی ہیں۔ اور ان کو جواز فراہم کرنے کے لیے اس قسم کی حقیقت کی تعریف ضروری تھی۔ ریاضیاتی ثبوت کو حتمی مانا جاتا ہے، اس لیے، مشاہداتی اور عملی تجربے سے ثابت نہ ہونے کے باوجود پانچوں نظریات کو تسلیم کرتے ہوئے حقیقت کی تعریف بدل دی گئی۔ اور حقیقت کو متنوع قرار دیتے ہوئے وحدانی نظریے کو ترک کرنے کی طرف ایک قدم بڑھایا گیا ہے۔ مگر ہمارے خیال میں یہ بھی ایک وقتی بند و بست ہے۔ اگر جینیوا میں ” ذراتی سرعت کنندہ” جس کی ایک خطیر رقم خرچ کر کے تجدید کی گئی ہے، مستقبل قریب میں کسی اور حقیقت کا مشاہدہ کرے جو اسڑنگ تھیوری کے برخلاف ہو تو اس نمونہ کی بنیاد پہ حقیقت کی 
تعریف کا کیا ہوگا؟

No comments:

Post a Comment