May 30, 2011

ماحولیات کے مسائل


چند سالوں سے ماحولیات اور اس سے متعلق مسائل دنیا میں ایک اہم موضوع بن گئے ہیں۔ ہر قومی لیڈر اور مشہور شخصیت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرے اور ماحولیات کو جن خطرات کا سامنا ہے اس سے عوام کو آگاہ کرے۔ عوام توقع کرتے ہیں کہ یہ لوگ خلاءمیں اوزون کی تہہ کی بربادی جو کلورو فلورو کاربن گیسوں کی وجہ سے اس پر ہو رہی ہے، ماحول کی درجہ بدرجہ گرمی جو کہ گرین ہاوس سے خارج شدہ گرمی سے ظہور پذیر ہو رہی ہے، طویل مدت والے کیڑے مار دواوں کے فصلوں پر زہریلے اثرات اور بایوڈائیورسٹی یعنی مختلف اقسام کے زندہ اجسام کی تباہی، یہ سب مل کر اوزون کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ مسائل خاصے پیچیدہ ہیں اور ان کے کئی پہلو بھی ہیں۔ ان مسائل کو ٹھیک طریقہ سے سمجھنے کے لئے ہمیں ایک سائنسی بنیاد پر تحقیقی معائنہ کرنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ماحول کو ایک وسیع پیمانہ پر بھی سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

آبادی کی درجہ بدرجہ زیادتی نے قدرتی وسائل پر بے حد دباو ڈال رکھا ہے۔ ابھی پچھلے سالوں میں دنیا میں اس بات کااحساس ہوا ہے کہ آبادی میں اضافہ ایک طوفان کا پیش خیمہ ہے اور اس سے ماحول بری طرح تباہ ہو رہا ہے۔
چرنوبل کی طرح تباہ کن ایٹمی حادثات نے ثابت کر دیا ہے کہ انسانی عمل کس طرح بین الاقوامی سطح پر تباہی پھیلا سکتا ہے۔ اس قسم کے حادثات کی سنجیدہ تحقیق کے لئے لازمی ہے کہ ان تمام اصولوں اور طریقہ کارکو سمجھنے کی بہت ضرورت ہے جو ماحولیات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اس میں توازن قائم رکھتے ہیں اور اس کے تسلسل کو یقینی بناتے ہیں۔ ماحولیات کا ہر مسئلہ ہمارے لئے ایک سائنٹیفک چیلنج ہے اور یہ مسئلہ یا پرابلم عموماً کیمیائی نوعیت کی ہوتی ہے۔
تیزابی بارش یہ اصطلاح ایک انگریز کیمیائی ماہر رابرٹ انگس نے 1852ءمیں ایجاد کی تھی اس کا تعلق تیزاب سے ہے جو ذرّات کی شکل میں ہوا میں شامل ہو جاتا ہے اور بارش کے پانی میں شامل ہو کر جب زمین پر گرتا ہے تو اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تیزابی ذرّات عموماً موٹر گاڑیوں سے اخراج ہونے والی گیسوں اور کوئلے سے چلنے والے بجلی پید ا کرنے والے کارخانوں سے اخراج ہونے والی گیسوں سے ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں۔ یہ عموماً بارش ، برف، ڑالہ، کہر، پالا، اوس کی شکل میں زمین پر گرتے ہیں۔ اس شکل میں یہ تیزاب نہ صرف قدرتی ماحول کا توازن بلکہ فصلوں وغیرہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔ ماہر ماحولیات اس نہایت خطرناک اور بڑے خطرہ سے نمٹنے کے لئے نت نئے طریقے تلاش کرنے میں مصروف ہیں اور اس پر خاصی رقم خرچ کی جارہی ہے۔
یہ نہ صرف عمارات کے اندر بلکہ باہر بھی پائی جاتی ہے اور ہمیشہ سے عوام کے لئے ایک بہت بڑی مصیبت رہی ہے اس کا وجود قدرتی بھی ہے اور انسان کی عملداری بھی اور یہ گیس یا ذرّات کی شکل میں پائی جاتی ہے۔ سب سے زیادہ ذریعہ موٹر گاڑیوں سے خارج شدہ گیس اور کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس ہیں۔ ماہر ماحولیات اس مصیبت سے چھٹکارہ حاصل کرنے اور اس پر کنٹرول کرنے کے لئے آبادی میں اضافہ پر کنٹرول، بجلی کے استعمال میں کمی، موٹر گاڑیوں کے استعمال میں کمی، آلودہ پٹرول اور تیل کے استعمال میں کمی اور چیزوں کے استعمال سے پیدا ہونے والے فضلہ میں کمی کے پروگراموں پر عمل پیرا ہیں لیکن آبادی میں اضافے سے اس مہم میں بہت مشکلات کا سامنا ہے۔
اطلاعات کے مطابق یہ اصطلاح سب سے پہلے جیمز ہینسن نے جو کہ گوڈارڈ انسٹیٹیوٹ ناسا، امریکہ کے ڈائریکٹر تھے استعمال کی تھی جب وہ امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے انرجی و قدرتی وسائل کے سامنے بیان دے رہے تھے۔ اس وقت انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ یہ مسئلہ نہ صرف حقیقی تھا بلکہ بے حد خطرناک بھی تھا۔ عرف عام میں اب یہ گرین ہاوس اِفیکٹ کہلاتا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے حرارت یا گہری سطح زمین پر پھیل جاتی ہے اور کرہ زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ماحولیات کے لئے سخت مضر ہے۔ آبادی میں مسلسل اضافہ، جنگلات کی کٹائی، موٹر گاڑیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ، کچرے کوڑے کا ہر جگہ پھینکنا، اوزون کی کمی وغیرہ وغیرہ سب ہی مل جل کر اس مصیبت میں اضافہ کرتے ہیں۔ خوش قسمتی سے ذرائع ابلاغ نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے زیر بحث لانا شروع کر دیا ہے اور تمام سرکاری، نیم سرکاری اور پرائیویٹ ادارے اس مسئلہ سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بنی نوع انسان بہت بڑی تعداد میں خطرناک کچرا کوڑا پیدا کرتے ہیں جو بغیر سوچے سمجھے باہر پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ دانستہ اور نادانستہ طور پر صنعت اور عوام پیدا کرتے ہیں۔ ہر سال اس خطرناک کچرے کوڑے کی وجہ سے عوام لاتعداد بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خطرناک کیمیائی عناصر اور کیڑے مار دواوں کا استعمال نہ صرف انسانوں کے لئے متعدد بیماریوں کا سبب بنتی ہیں بلکہ جانوروں اور فصلوں کو بھی بہت نقصان پہنچاتی ہیں۔ پاکستان میں جو چاہے وہی کرتا ہے نہ مناسب قوانین ہیں اور نہ ہی ان کی پاسداری یا نفاذ کیا جاتا ہے ۔ سب سے بڑی اور خطرناک پرابلم یا مسئلہ صنعتی اداروں اور فیکٹریوں کا خطرناک فضلہ دریاوں اور پانی کے نالوں میں ڈالنا ہے جس سے پینے کا پانی صحت کے لئے بے حد مضر ہو جاتا ہے اور عوام کی بہت بڑی تعداد خطرناک بیماریوں کا شکار ہو کر فوت ہو جاتے ہیں۔
آبادی میں اضافہ۔ 1968ءمیں پول اِیرلش نے اپنی مشہور زمانہ کتاب آبادی کا بم شائع کی۔ اس نے اس کتاب میں کہا کہ زراعت کے فن میں ترقی کی وجہ سے آبادی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا اور خطرہ کی سطح پر پہنچ گئی اور اس وجہ سے ماحول پر بہت سخت دباو پڑ گیا ہے۔ اس میں غربت اور غیر ترقی یافتہ ممالک نے بہت ہی منفی کردار ادا کیا ہے کیونکہ ان کی حکومتوں نے نہ ہی عملی اور نہ ہی کارگزاری دکھانے والے اقدامات کئے ہیں۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو ہمارے مستقبل کا خدا ہی حافظ ہے اور مستقبل قریب میں تباہی کا پیغام آجائے گا۔
اوزون کی تہہ زمین کو سورج سے خارج ہونے والی الٹراوائلیٹ برقناطیسی شعاوں سے محفوظ رکھتی ہے اس تہہ میں کمی سے زمین پر نہایت تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا اثر کلوروفلورو کاربن گیسوں کے اخراج کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ بہت سے ترقی یافتہ ممالک اس پر رضا مند نہیں ہو رہے کہ کلوروفلورو کاربن گیسوں کی تیاری میں کمی کر دیں یا بالکل بند کر دیں کیونکہ اس سے مالی فوائد وابستہ ہیں۔ اس عمل سے ماحولیات کے لئے بڑے خطرات موجود ہیں۔ شروڈ رولینڈ اور ماریو مولینا نے 1974ءمیں پیشگوئی کر دی تھی کی ننانوے فیصد تمام کلوروفلورو کاربن گیسوں کے ذرّات ماحول میں چلے جائیں گے۔ اوزون کی سطح میں کمی یا ٹوٹ پھوٹ سے نہ صرف انسانوں کی جلد میں کینسر کا ذریعہ بلکہ پودوں اور درختوں کا طرز زندگی بھی تبدیل ہو جائے گی جس کے نتیجے میں فصلوں کا سلسلہ خراب ہو جائے گا اور سمندری حیاتیات یعنی مچھلی ، جھینگوں وغیرہ کی زندگی پر بھی بہت ہی نقصان دہ اور مضر اثرات پڑیں گے۔ مانٹریال پروٹوکول میں تقریباً تیس ترقی یافتہ ممالک نے جن میں امریکہ اور یورپی ممالک شامل ہیں یہ عہد کیا کہ وہ کلوروفلورو کاربن گیسوں کی تمام تیاری اور استعمال پر پابندی لگا دیں گے یہ ایک نہایت مثبت قدم ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک آلودگی کا شکار ہیں، آلودگی میں اضافہ کی سب سے بڑا وجہ موٹر گاڑیاں، آگ، کچرے کوڑے کو جلانا، پیڑولیم کی پیداوار، صنعتی محلل، سیال پینٹ، اور سیسہ ملی گیس اور پٹرول ہیں۔ دھواں نہ صرف انسانی صحت کے لئے بے حد مضر ہے بلکہ فصلوں، سبزیوں، پھلوں وغیرہ کے لئے بھی بے حد نقصان دہ ہے۔ پانی کی آلودگی ، تیل و پیٹرول کا سمندر دریا میں خارج ہونا، گٹر کا پانی ، دلدل کچراکوڑا ، کیمیائی اشیاءوغیرہ اس آلودگی کے اہم ذمہ دار ہیں۔
فیکٹریوں اور کارخانوں کا دھواں اور مضر صحت گیسوں کا اخراج فضائی آلودگی کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستان میں آلودگی میں اضافے کی ایک اور اہم وجہ جنگلات کی کمی ہے۔ دوسری جانب درختوں کو بے دردی سے کاٹا جارہا اور ان کی جگہ نئے پودے نہیں لگائے جارہے۔ درخت مضر صحت کاربن گیسوں کو جذب کرکے صحت بخش آکسیجن فراہم کرنے کا ایک بڑا قدرتی ذریعہ ہیں۔

No comments:

Post a Comment