May 30, 2011

پاکستان میں حیاتیاتی تنوّع کی صورتحال

پاکستان میں حیاتیاتی تنوّع کی صورتحال
اسلام آباد: ا نسان نے ترقی کے لئے قدرتی جنگلات کا کافی بڑا حصہ ختم کردیا ہے، آبی حیات کے ذخیرہ کا چوتھائی حصہ ختم ہوچکا ہے، پانی کے نصف ذخائر کو آلودہ کردیا گیا ہے اور اس قدر زیادہ زہریلی گیسیں فضاءمیں خارج کی جارہی ہیں جو زمین کو آنے والی کئی صدیوں تک گرم رکھیں گی۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس تباہی کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ جاری ہے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے نواح میں مری کی پہاڑیوں سے لے کر راول جھیل تک کا علاقہ ہمیشہ سے ہزاروں میل دور سے نقل مکانی کر کے آ نے والے مختلف اقسام کے پر ندوں کی محدود عرصے کے لئے پسندیدہ قیام گاہ رہا ہے، لیکن اب اس علاقے کی یہ حیثیت بھی ختم ہوتی نظر آرہی ہے ، اور اس کا سبب خاص طور پر مری اور اسکے قرب و جوار میں واقع پہاڑی علاقوں کی تیز رفتار کمرشلائزیش بھی ہے۔ ان علاقوں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں راول جھیل اور اس کا نواحی علاقہ ایسے لاکھوں کی تعداد میں آنے والے پرندوں کاعارضی مسکن ہوا کرتا تھا، جو موسم سرما کے علاوہ گرمیوں کے موسم میں بھی اس خطے کا رخ کرتے تھے۔
یہ حقیقت ہمارے پرائمری کے نصاب میں بھی شامل ہے کہ درختوں کی ایک عظیم ماحول دوست خوبی ان کا کاربن ڈائی آکسائڈ جیسی زہریلی گیس کا جذب کرنا بھی ہے اور سائنسی تحقیق کے مطابق یہ درخت ہر سال دو سو تراسی گیگا ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں، جبکہ ایک اندازے کے مطابق جنگلات، سوکھی لکڑی، زمین اور کوڑا کرکٹ میں فضاءکے مقابلے میں پچاس فیصد زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ موجود ہوتی ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کمی کی وجہ سے درجہ حرارت میں بھی واضع کمی آتی ہے، جبکہ آکسیجن کی فراوانی سے جانداروں کی صحت پر خوشگوار اور مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ موجودہ دور میں کرئہ ارض پر ا نسا نی آبادی چھ اعشاریہ پانچ ارب کے قریب پہنچ چکی ہے، اور یہ امر بھی واضح ہے کہ آبادی بڑھنے کے باعث نہ صرف اناج اور دیگر ضروریات زندگی بلکہ رہائش و صحت کےلئے مزید زمین کی بھی ضرورت ہوگی، اور اس کے نتیجے میں غربت، بے روزگاری اور دیگر معاشی و معاشرتی مسائل میں بھی بتدریج اضافہ ہوتا رہے گا۔ اس کا براہ راست اثر جنگلات کی تباہی کی صورت میں بھی سامنے آسکتا ہے، کیونکہ فرنیچر اور رہائشی ضروریات کے لئے درختوں کا استعمال عام ہے اور دنیا کے اکثر ممالک میں زمین کو زرعی مقاصد کے لئے استعمال میں لانے کی غرض سے جنگلات کی کٹائی بھی کی جاتی ہے۔
دنیا کی آبادی بڑھنے کی وجہ سے ماحولیات اور موسمی حالات میں بھی تیزی سے منفی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، جن پر قابو پانے کا بہترین حل درختوں کی تعداد میں اضافہ ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے سال 2010ءکو بائیو ڈائیورسٹی کا سال قرار دیا گیا تھا، اور ماہرین کے مطابق یہ ایک موقع تھا کہ جب ا نسانی فلاح و بہبود کے لئے بائیو ڈائیورسٹی کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور اس کی حفاظت کے لئے کوششوں کو تیز کیا جاسکتا تھا، کیونکہ بائیو ڈائیورسٹی ک
ے بغیر دنیا میں زندگی بہت ویران، اداس اور بے مزہ ہوگی۔
پاکستان میں بائیو ڈائیورسٹی کے حوالے سے پاکستان میوزیم اوف نیچرل ہسٹری (پی ایم این ایچ) کی جانب سے معلوماتی پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا ہے اور کچھ عرصہ پہلے اس ادارے کی جانب سے پاکستان میں پائی جانے والے نادر اور نایاب معدنیات، حیوانات، قیمتی پتھروں کے حوالے سے پروگرام کا انعقاد بھی کیا گیا ہے۔ اس بارے میں پی ایم این ایچ کے ڈائریکٹر جنرل ایس اظہر حسن کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ ملک کے نوجوان، بچوں اور نوعمر طالب علموں کو بائیو ڈائیورسٹی کے حوالے سے مفید معلومات فراہم کرنے کے لئے اپنی پوری کوششیں جاری رکھے گا، جبکہ پی ایم این ایچ کی جانب سے حال ہی میں پچاس لاکھ روپے کی لاگت سے ایک ڈائنوسور سیکشن بھی قائم کیا گیا ہے۔

No comments:

Post a Comment