May 30, 2011

پرندہ اور گوسفند


افریقہ کے جنگلوں میں ایک پرندہ ایسا پایا جاتا ہے جس کی چونچ بڑی مضبوط ہے اور اس کے بچے گوشت میں پرورش پاتے ہیں۔ جب اس پرندے کو افزائش نسل کرنی ہوتی ہے تو وہ بکرے یا گوسفند کی ریڑھ کی ہڈی پر ضرب لگا کر اس کو معذور کردیتا ہے اور اپنی چونچ سے اس کی کمر میں زخم بنا کر اس میں انڈے دیتا ہے۔
انڈوں سے بچے نکلنے کے دورانیہ میں وہ پرندہ اس گوسفند یا بکرے نما جانور کو اپنی بڑی چونچ میں بھر بھر کے پانی بھی پلاتا ہے اور اس کےلئے چارہ کا بھی انتظام کرتا ہے اور جب اس پرندے کے بچے پرواز کے قابل ہوجاتے ہیں تو وہ پرندہ اس گوسفند کی دیکھ بھال چھوڑ کر اپنے اگلے شکار کی طرف پرواز کرجاتا ہے۔ اور یہ گوسفند بیچارہ اپنے ناسور زخم کے باعث مرجاتا ہے۔
کچھ یہی حال تیسری دنیا کے ملکوں کا بھی ہے۔ سائنس و ٹیکنولوجی کے نام پر تیسری دنیا کے ملکوں کو ایسے منصوبے فراہم کئے جاتے ہیں جو منصوبہ ساز کمپنیز کے بچوں کےلئے یعنی ان کی اگلی نسلوں کےلئے پرورش کا سامان بنتے ہیں۔
اس تمہید کو باندھنے کا مقصد دراصل توانائی کے شعبے میں آئی ایم ایف کے دباﺅ پر بجٹ کٹوتی ہے۔ حکومتی اقتصادی ٹیم نے آئی ایم ایف سے حالیہ مذاکرات میں جن شرائط کو تسلیم کیا ہے ان میں ایک شرط آئندہ بجٹ میں توانائی کے جاری منصوبوں کےلئے فنڈز کی کمی ہے۔ اس کٹوتی کے تحت دیامربھاشا ڈیم کےلئے طلب کردہ اکیاون ارب روپے کی رقم کے عوض صرف اٹھارہ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اسی طرح منگلا ڈیم توسیعی منصوبے کےلئے تیرہ ارب روپے درکار ہیں لیکن اس مد میں کوئی رقم مختص نہیں کی جارہی ہے۔ یہ بات ہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ نیوکلئیر منصوبوں سی تھری اور سی فور کےلئے بھی رقوم نہیں رکھی گئی ہیں۔
آئی ایم ایف کی یہ شرائط اور ان کو تسلیم کرنے کے پیچھے کیا اسباب ہیں اس سے قطع نظر محسوس یہ ہورہا ہے کہ متذکرہ گوسفند ہم اور پرندہ آئی ایم ایف ہے۔ اب اس پرندے کے بچے کب بڑے ہوتے ہیں اور کب ضعف و ناتوانی کے باعث ہم اپنے اختتام کو پہنچتے ہیں۔
چینی کہاوت ہے کہ دور کسی مندر میں اگربتیاں جلانے سے بہتر ہے کہ قریب ہی کسی کو خوش کردیں اس گوسفند سے بچانے والا ہمارے پڑوس میں بیٹھا ہے جو ہمیں وقتا فوقتا مدد فراہم کرتا رہتا ہے، کبھی اسی اور کبھی ڈھائی سو میگاواٹ کے نیوکلئیر پاور پلانٹ کے ذریعے۔ لیکن اس پر بھی جب ہم راضی نہیں ہوتے تو براہ راست عملی طور پر ہماری مدد کےلئے تیار ہوجاتا ہے۔ توانائی کے حالیہ بحران میں بھی چین نے غیرمشروط مدد کی پیشکش کی ہے لیکن پھر ہم کوسوں دور اس پرندے کے 
پاس کیوں جارہے ہیں جوہمیں نوچ نوچ کر کھائے جارہا ہے یہ ایک انتہائی توجہ طلب امر ہے۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment