حکومت کسان کی سہولت کےلئے کھیت سے فصل کی خریداری پر یقین رکھتی ہے اور جانتی ہے کہ اگر وہ خود میدان میں نہیں آئے گی تو نجی شعبہ کسان کا استحصال کرتے کرتے اس کو زندہ درگور کردےگا۔ اس سلسلے میں گندم کی کم ازکم قیمت خرید کا تعین اور کھیت سے خریداری اہم اقدامات ہیں۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی حکومت نے خریداری کے چند اہداف مقرر کئے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں اہداف کا تقرر ان کے حصول کے لئے نہیں کیا جاتا بلکہ سرکاری اعداد و شمار پورا کرنے کےلئے کیا جاتا ہے۔ اس سال حکومت پنجاب نے گندم کی خریداری کا ہدف پینتیس لاکھ میٹرک ٹن مقرر کیا تھا اور بتیس لاکھ میٹرک ٹن خریداری کی ہے (ےہ صرف حکومت پنجاب کا معاملہ نہیں بلکہ دیگر صوبائی حکومتوں کے اہداف بھی کچھ ایسے ہی ہیں)۔ اسطرح اپنے تئیں بڑا مارکہ مارا ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم کبھی اپنے اہداف سے زیادہ کچھ کرسکیں گے؟ کیا اہداف کا مقصد صرف جمع خرچ کا حساب ہے یا اس کا مقصود اس کے سوا بھی کچھ ہے؟کاش کہ ہم اہداف کے حصول کی مقصدیت کو سمجھتے ہوئے اس کے لئے کوشش کریں تاکہ کل جب بھی ہم کوئی نعرہ لگائیں تو فقط زبانی جمع خرچ نہ ہو بلکہ اہداف کے حصول کے ساتھ مقصدیت بھی حاصل ہو۔ کل جب ہم کسان کو کسی بھی فصل کی بمپر پیداوار کی نوید دیں تو اس کے ساتھ ہی ساتھ کسان سے فصل کی مکمل خریداری کی خوشخبری بھی دیں۔ لیکن ایسا صرف اور صرف جامع منصوبہ بندی کے ذریعے ہی ممکن ہے ورنہ یہی نعرہ لگتا رہے گا چڑھ جا بیٹا سولی پر رام بھلی کرے گا۔
June 13, 2011
چڑھ جا بیٹا سولی پر۔۔۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment