عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے پاکستانی ساحلی علاقے بھی متاثر ہونے کا امکان ہے۔سائنسدانوں کے مطابق گلیشیئرز پگھلنے کی رفتار میں اضافے کی وجہ سے مستقبل میں ضرورت کے مطابق پانی دستیاب نہ ہو سکے گا اور زراعت متاثر ہوگی جبکہ سب سے زیادہ نقصان انڈس ڈیلٹا کو ہوگا۔ بڑے آبی ذخائر کی غیر موجودگی میں خشک سالی کی صورتحال پیدا ہوگی اس لئے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ بلاتاخیر آبی ذخائر کی تعمیر پر مفاہمت اختیار کی جائے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے نہ صرف پانی اور خوراک کی قلت پیدا ہوگی بلکہ اس سے موسموں کی شدت میں بھی اضافہ ہوگا جس کے باعث سمندری طوفان اور سیلابی بارشیں ہوں گی اور ساحلی علاقوں سے لے کر پہاڑوں پر آباد سب لوگ اس سے شدید طرح متاثر ہوں گے۔عالمی موسمیاتی تحقیق سے متعلق ایک سافٹ وئیر کے ذریعے تحقیق کی گئی اس تحقیق میں ڈیڑھ سو سے زائد ممالک کے قریب ایک لاکھ افراد شامل ہوئے جنہوں نے مستقبل کے ماحول کے بارے میں ساٹھ ہزار کے لگ بھگ پیشین گوئیاں کیں۔ اس منصوبے میں کی جانے والی تحقیق سے حاصل شدہ نتائج کے مطابق دنیا کے درجہ حرارت میں دو ڈگری سے گیارہ ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ متوقع ہے۔ اس اضافے کے وقت کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہمارے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی شرح کتنی تیزی سے بڑھتی ہے۔
سلسلہ ہمالیہ میں موجود جھیلوں میں پانی بڑھنے کا سلسلہ گذشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ یہاں موجود کم ازکم پچاس گلیشیائی جھیلیں اپنی گنجائش سے زیادہ بھر چکی ہیں اور اب چھلکنے کو ہیں اور نشیبی وادیوں میں رہنے والوں کے سر پر سیلاب کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ تقریباً دو ارب سے زائد افراد ہمالیہ کے دریاﺅں پر براہ راست یا بالواسطہ انحصار کرتے ہیں جن میں بنگلہ دیش، بھارت، نیپال، بھوٹان، چین، پاکستان اور افغانستان بھی شامل ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق ان گلیشیئرز سے آنے والا پانی متعدد دریاﺅں کے وجود کا سبب ہے جو کئی ریاستوں سے گزرتے ہیں اور لاکھوں افراد کا روزگار زراعت اور دوسرے کئی شعبے اس سے منسلک ہیں۔ گلیشیئرز کے اس تیز رفتاری سے پگھلنے کا سبب زمین کے درجہ حرارت اور موسم میںآنے والی تبدیلیاں ہیں۔ تاہم زیادہ بڑا خطرہ اس بات کا ہے کہ گلیشیئرز سے ملنے والا پانی کم ہونے کی صورت میں نہ صرف اقتصادی بلکہ سیاسی تضادات بھی جنم لے سکتے ہیں کیونکہ یہ پانی کئی ریاستوں کے درمیان تقسیم ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی قریب میں اس مسئلے پر توجہ نہیں دی گئی اور اس معاملے پر آخری رپورٹ نوے کی دہائی میں آئی تھی۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلاﺅ کے باعث آنے والے وقتوں میں ان گلیشیئرز کے ناپید ہونے کا خدشہ بڑھتا جارہا ہے اور اس کے ساتھ ان لوگوں کی زندگی بھی خطرے کا شکار ہورہی ہے جو اپنی بقا کیلئے ان گلیشیئرز سے نکلنے والے دریاﺅں پر انحصار کرتے ہیں۔ماحولیات کے ماہرین کے مطابق زمین اپنی تاریخ کے ایک ایسے نئے دور میں داخل ہو رہی ہے جہاں اس کے ماحول پرسب سے زیادہ اثر انداز انسان ہورہاہے۔ زمینی تبدیلیاں اتنی تیزی سے اور اتنے بڑے رقبے پر ہو رہی ہیں کہ جس کا اندازہ لگا نا مشکل ہے ۔http://www.technologytimes.pk/2011/06/04/%DA%AF%D9%84%DB%8C%D8%B4%D8%A6%D8%B1%D8%B2-%DA%A9%D8%A7-%D8%A8%DA%86%D8%A7%EF%BA%85-%D8%A7%D9%86%D8%B3%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%A8%D9%82%D8%A7%D8%A1%DA%A9%DB%8C-%D8%B6%D9%85%D8%A7%D9%86%D8%AA/
No comments:
Post a Comment