ماہرین کے مطابق سال 1962 سے 2001 تک یعنی تیس سال میں مختلف گلشیرز کے سائز میں بیس سے پچیس فی صد کمی ہوئی۔ یہاں یہ با ت اہم ہے کہ پر بتی گلیشیر زکا رقبہ سالانہ ایک سو ستر فٹ کم ہوتا جا رہا ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ ہم توانائی کے روایتی ذرائع جس میں کوئلہ ، لکڑی اور تیل استعمال کر تے ہیں اس میںایک لیٹرپٹرول سے تین عشاریہ سات کلو گرام، ایک لیٹر ڈیزل سے تین عشاریہ دو کلو گرام، ایک کلو گرام کوئلے سے دو عشاریہ تین کلوگرام اور ایک کلوگرام لکڑی جلانے سے دو کلوگرام کا ربن ڈائی آکسائیڈ خا رج ہوتی ہے، جو ماحول کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک توانائی کے حصول کے لئے تیل، لکڑی اور دوسرے ذرائع توانائی کا استعمال کرتے ہیں جس سے کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے اور عالمی ماحولیات کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ اس وقت کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں چین کا حصہ تیئس فی صد، امریکہ کا بائیس فی صد اور پاکستان کاصفر عشاریہ تین فی صد ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دنیا میں فی کس کا ربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بائی
س ٹن ہے۔ جس کو متبادل ذرائع توانائی کے استعمال سے کم کیا جاسکتا ہے۔ ہوا کے ایک ملین ذرات میں تین سو پچاس ذرات کاربن ڈائی آکسائیڈ پائے جاتے ہیں جس سے ما حول کو انتہائی نُقصان پہنچ رہا ہے۔ فی الوقت پاکستان میں مختلف قسم کی گیسوں اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ما حول کو روزانہ ایک ارب روپے اور سالانہ تین سو پینسٹھ ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ توانا ئی کے حصول کے لئے بے تحا شا جنگلات کا ٹے جا رہے ہیں جس سے ماحول کو مزید نقصان ہو رہا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ خداوند عالم نے پو دوں اور درختوں کو بنی نوع انسانوں کے لئے آکسیجن بنانے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی سب سے بڑی فیکٹری بنایا ہے۔ اور جب ہم درخت بے دردی سے کاٹیں گے تو اس سے آکسیجن مہیا کرنے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے سے قدرت کے ان کارخانوں کو انتہائی نقصان ہو گا۔ اگر جنگلات کی کٹائی اسی رفتار اور تیزی سے برقراررہی تو اس سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں زیادتی اور آکسیجن کی مقدار میں کمی ہو گی جس کی وجہ سے گرمی اور در جہ حرارت میں اضا فہ ہو گا۔ وطن عزیز میںگھریلو سطح پر لکڑیو ں کا استعمال بیاسی فی صد، کمرشل سطح پر چار فی صد اور صنعتی طو ر پر پندرہ فی صد ہے۔ سال 1990ءسے سال 2010ءتک پاکستان میں جنگلات کے رقبے میں چونتیس فی صد کمی ہوئی ہے۔ اسکے علاوہ پاکستان میں تیل کی خرید پر چھ ارب ڈالر سالانہ خرچ ہوتا ہے۔ اگر ہم متبادل ذرائع توانائی کو بروئے کار لائیں تو ہم اس خطیر رقم کو بچا سکتے ہیں۔ ہماری خو ش قسمتی ہے کہ اس وقت وطن عزیز میں متبادل ذرائع کے دو ادارے پاکستان متبادل توانائی بو رڈ اور پاکستان کو نسل آف رینی ویبل انرجی ٹیکنولوجیز کام کر رہی ہیں۔ بد قسمتی سے اے ڈی بی وہ کامیابی حا صل نہ کر سکی جسکی توقع کی جاتی تھی اور سال 2030ءتک اس ادارے نے نو ہزار سات سو میگا واٹ کا جو ہدف مقرر کیا تھا سال 2010ءتک اس سلسلے میں صرف آٹھ میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکی جو اصل ٹارگٹ کا ایک عشاریہ دو فی صد ہے۔ پاکستان میں ساٹھ ملین یعنی چھ کروڑ جانور ہیں جن کے گو بر سے ایک کروڑبائیو گیس پلانٹ لگائے جاسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان میں پانی سے بجلی پیدا کر نے کی ایک لاکھ میگا واٹ کی صلا حیت مو جو د ہے۔ ایک مربع میٹر رقبے سے ہم سورج سے ایک کلو وا ٹ شمسی توانائی حا صل کر سکتے ہیں۔ مزید برآں اگر بیس مر بع کلومیٹر پر شمسی نظام لگایا جائے تو اس سے پاکستان کی توانائی کی ساری ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔ اسکے علاوہ بلو چستان اور سندھ کے ساحلی علاقے سے پچاس ہزار میگاواٹ تک بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کا نہری نظام جو کہ اسی ہزار مر بع کلومیٹر علاقے پر پھیلا ہوا ہے اس سے بھی لاکھوں میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ ملک متبادل ذرائع توانائی کا جو دوسرا ادارہ کام کر رہا ہے وہ پاکستان کو نسل آف رینی ویبل انرجی ٹیکنولوجی ہے۔ یہ ادارہ سال 2001ءمیں دو اداروں کو ضم کر کے وجود میں آیا۔ اس ادارے نےز دس سال کے دوران چار ہزار بائیوگیس پلانٹ، نومیگاواٹ کے پانچ سو چالیس چھوٹے پن بجلی گھر تا حال کام کر رہے ہیں اور پنتالیس چھوٹے پن بجلی گھر زیر تعمیر ہیں۔ علاوہ ازیں اس ادارے نے سندھ اور بلوچستان میں ایک سو پچپن ہوائی چکیاں، ایک لاکھ مٹی سے بنے ہوئے چولھے، پانچ ہزار میٹالک کو ک سٹوز، پانچ سو تینتیس سولر ڈرائیرز، دو سو شمسی واٹر ہیٹرز، ایک ہزار سولر کو کرز اور نہر پر بجلی پیدا کر نے کا تین سو تیس کلو واٹ کا ایک نظام بنایا ہے جو انتہائی موثر طریقے سے کام کر رہا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دس کلو واٹ کے پن بجلی گھر جس پر سات لاکھ روپے خرچہ آتا ہے۔ یہ اپنی قیمت چار سال میں پوری کرتا ہے اسکی زندگی دس سال ہو تی ہے۔پانچ مربع میٹر بائیو گیس پر چونتیس اور چالیس ہزار کے درمیان خرچہ آتا ہے۔ جس سے ہم ماہانہ ترانوے لیٹر مٹی کے تیل کے برابریعنی (آٹھ ہزار تین سو سترروپے)، اور آٹھ سوکلوگرام یعنی (دس ہزار اسی روپے) کی لکڑی کی بچت کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس سے ہم سالانہ چودہ سو روپے کی نامیاتی کھاد بھی حا صل کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک سو کلو واٹ نہری نظام پر چلنے والے پلان سے بجلی پیدا کرنے پر ہم سالانہ ایک سو چھبیس ملین روپے بچا سکتے ہیں۔ اس طرح پیکرٹ نے ایسے منصوبے بنائے ہیں جس سے ہم پچاس فی صد تک لکڑی بچا سکتے ہیں۔ اگر ہم اس ادارے کی بجٹ پر نظر ڈالیں تو اس ادارے کا بجٹ اٹھاون ملین ہے۔ جس میں نہ صرف یہ ادارہ اپنے پانچ دفتروں کا خرچہ ملازمین کی تنخواہیں برداشت کر رہا ہے بلکہ متبادل ذرائع توانائی کی ترویجی اور تحقیقی سر گرمیوں میں بھی کو شاں ہیں۔ اگر ہم اس ادارے کا ملک اور قوم کو فائدہ کا اندازہ لگائیں تو یہ ادارہ اس وقت ملک کو تقریباً چونتیس سو ملین روپے کا فائدہ دے رہا ہے۔http://www.technologytimes.pk/2011/06/04/%D9%85%D8%AA%D8%A8%D8%A7%D8%AF%D9%84-%D8%B0%D8%B1%D8%A7%D8%A6%D8%B9-%D8%AA%D9%88%D8%A7%D9%86%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D8%B9%D8%AF%D8%A7/
No comments:
Post a Comment