اسلام آباد( نیوز رپورٹر) سوئی گیس ٹیرف میںیکم جولائی 2011ءسے پچاس فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے، اس سلسلے میں وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل بڑے زور وشور سے کام کررہی ہے۔ پلاننگ کمیشن نے پورے سال کی ہر سہ ماہی میں پندرہ فیصد اکوالائزیشن سرچارج نافذ کرنے کی تجویز مسترد کر کے وزارت پٹرولیم نے مختلف سیکٹرز کا گیس ٹیرف تیرہ سے پچاس فیصد تک بڑھانے کا فارمولا اختیار کیا ہے۔ یہ غیر پیداواری شعبوں میں گیس کے ضیاع کی روک تھام یقینی بنانے کیلئے گیس نرخوں میں ردوبدل کی جارہی ہے کیونکہ ملک میں گیس کی پیداوار چار سے پانچ فیصد کم ہوچکی ہے اور رواںسال شہریوں کو ایک عشاریہ پانچ ارب کیوبک فٹ روزانہ گیس کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا سال ہے جب صنعت توانائی اور سی این جی کے شعبوں کو گرمیوں میں بھی گیس کی قلت کا
سامنا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گیس کے نئے نرخوں کے تحت فرٹیلائزر سیکٹر کا ٹیرف پچاس فیصد بڑھایا جائیگا کیونکہ اکانومی کے تمام شعبوں میں اس کے نرخ سب سے کم ہیں۔ فرٹیلائزرز کے موجودہ نرخ دو قسم کے ہیں ایک پچاس روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اور دوسرا ایک سو روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ماہرین کا کہنا ہے کہ فرٹیلائزر سیکٹر پر گیس ٹیرف میں اضافے سے یوریا کی قیمتوں پر منفی اثر ہوگا جوکہ فصلوں کیلئے بنیادی اہمیت کی حامل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ زرعی پیداوار کی لاگت بڑھ جائے گی جس سے ملک میں خوراک کی اشیاءمزید مہنگی ہوجائیں گی۔ تاہم ٹیکسٹائل سیکٹر کیلئے
وزارت خصوصی گیس ٹیرف پر کام کررہی ہے جو جنرل انڈسٹری کے ٹیرف سے دو فیصد کم ہوگا جبکہ انڈسٹریل سیکٹر کیلئے ٹیرف میں پندرہ فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ کیونکہ ملکی برآمدات میں ٹیکسٹائل سیکٹر کا سب سے بڑا حصہ ہے اس لئے حکومت ٹیکسٹائل انڈسٹری کیلئے خصوصی گیس ٹیرف دے گی۔ گھریلو صارفین کیلئے اوگرا پہلے ہی گیس ٹیرف سوئی ناردرن اور ناردرن کیلئے بالترتیب ایک عشاریہ پانچ فیصد اوردو عشاریہ تین فی فیصد بڑھا چکی ہے۔ تاہم سیکرٹری پٹرولیم اعجاز چوہدری کے مطابق اوگرا کے ٹیرف میں اضافے کو دو گیس یوٹیلیٹیز کے منافع میں شامل کیا جائیگا جس کا مطلب یہ ہے کہ گیس ٹیرف میں اضافہ نہیں ہوگا۔ تاہم ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ریشنلائزیشن پالیسی کے تحت گھریلو صارفین کیلئے بھی گیس ٹیرف میں پندرہ فیصد اضافہ کیا جائیگا جس سے گھریلو شعبے کیلئے گیس کی قیمت چار سو اکاون عشاریہ سات روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ہے۔http://www.technologytimes.pk/2011/06/04/%D8%B3%D9%88%D8%A6%DB%8C-%DA%AF%DB%8C%D8%B3-%D9%B9%DB%8C%D8%B1%D9%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D8%B6%D8%A7%D9%81%DB%92-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%DB%8C%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%A7%DA%BA/
No comments:
Post a Comment