January 31, 2011

حیاتیاتی تنوّع

شفیق منہاس
بہت سے قارئین کیلئے یہ نام یقیناً نیا اور انوکھا ہوسکتا ہے، لیکن یہ ایک ایسا موضوع ہے جو زمین پر زندگی کی بقاءکیلئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ سانس لینا۔ حیاتیاتی تنوع، یعنی ماحولیات میں ہونے والی مثبت اور منفی تبدیلیاں آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں، اور انتہائی فخر سے یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں فلاں نعمت بھی ہے اور قدرت کا فلاں انعام بھی ہے، لیکن دوسری جانب جب بات آئے ان قدرتی اثاثوں کی حفاظت کرنے کی، تو ہم سب یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔
دیکھا جائے تو یہ معاملہ دراصل شیخ چلی کی اس کہانی سے مماثلت رکھتا ہے جس میںانہیں کہیں سے انڈوں کی ٹوکری مل گئی اور وہ اسے سر پر اٹھائے خوشی خوشی یہ سوچتے ہوئے گھر جارہے تھے کہ ان انڈوں سے مرغیاں، ان سے پھر انڈے، پھر انڈوں اور مرغیوں کا کاروبار اور انتہائی امیر بن کر نوکروں سے ناز نخرے اٹھوانا ہی اب انکا مقدر بنے گا۔ لیکن بھلا ہو اس غریب آدمی کا جو شیخ چلی کے خیالی محل میں آکر ان سے ادھار مانگنے لگا، لیکن شیخ صاحب نے اسے ٹھوکر مار کر نہ صرف دھتکار دیا بلکہ اپنے سر سے انڈوں کی ٹوکری بھی گرا دی۔
یہ بہرحال حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کو خدائے ذوالجلال نے ایسی کئی نعمتوں سے نوازا ہے جنہیں انگلیوں پر شمار نہیں کیا جاسکتا۔ کہیں لق و دق صحرا تو کہیں گھنے جنگلات، ایک طرف سمندر کی عمیق گہرائیاں تو دوسری جانب کے ٹو، نانگا پربت کی بلند ترین چوٹیاں اور ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم کے پہاڑی سلسلے۔ یہاں ایسی بےشمار نعمتیں موجود ہےں جو شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں ایک ساتھ نظر آسکےں، اور اسی نظریہ کے تحت عالمی ماحولیاتی اداروں نے ملک کے طول و عرض میں موجود 225 جگہوں کو منفی حیاتیاتی تنوع سے محفوظ رکھنے کی سفارش کی ہے۔ ان مقامات میں 14 نیشنل پارک، جانوروں کی 99 پناہ گاہیں اور 96 تفریح گاہیں شامل ہیں۔ یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بلوچستان میں زیارت ایک ایسا مقام ہے جہاں موجود جونیپر نسل کے طویل القامت درختوں کے جنگلات دنیا میں دوسرے نمبر پر آتے ہیں۔ تقریباً 51 ہزار 3 سو ہیکٹر پر پھیلے ان جنگلات میں 1 ہزار سے 5 ہزار سال تک پرانے درخت آج بھی موجود ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ اب یہ جنگلات تیزی سے تباہ ہورہے ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق پاکستان میں ممالیہ جانوروں کی 174، پرندوں کی 668 اور مچھلیوں کی 198 اقسام پائی جاتی ہیںاور ان میں سے اکثر کا گوشت غذاءکے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اعلی حکام کے زیر سایہ غیر قانونی اور اندھا دھند شکار، پالتو جانوروں کی ناقص غذائ، فضائی اور آبی آلودگی اور تباہ ہوتے جنگلات نے قدرت کی ان بیش بہاءنعمتوں کو ہم سے دور کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ ہمارے ملک میں موجود لاکھوں ایکڑ بنجر زمین کو قابل کاشت بنانے کے بجائے جنگلات کاٹ کر وہاں کی زرخیز زمین کو زرعی اجناس کی کاشت کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ پاکستان کو قدرت کی طرف سے عطاءکئے گئے انمول خزانے، جن میں رن کچھ کے دلدلی علاقے، تبت کی سطح مرتفع، مغربی ہمالیہ کے جنگلات، دریائے سندھ کے ڈیلٹا پر موجود نایاب نسل کی جنگلی حیات اور بحرئہ عرب شامل ہیں، آہستہ آہستہ خالی ہورہے ہیں جس کے نتیجے میں ایک طرف موسم اور ماحول پر منفی اثرات مرتبہ ہورہے ہیں تو دوسری جانب غذاءکے قدرتی وسائل میں بھی کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ میں یا آپ انفرادی طور پراس کیلئے کیا کرسکتے ہیں سوائے شیخ چلی کی طرح ان قدرتی اثاثوں کی بنیاد پر مستقبل میں ایک خوشحال اور مضبوط پاکستان کا تصور کرنے کے؟ کیونکہ جنگلات کی حفاظت، سمندر میں آلودگی پر قابو پانا، پاکستان کے قومی جانور مارخور سمیت دیگر نایاب جنگلی جانوروں کی معدوم ہوتی نسلوں کی بقاءکے بارے میں سوچنا صرف حکومت کا کام ہے، اور ظاہر ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسے تمام امور حکومت ہی کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ ہمارے ایک عزیز نے امریکہ سے واپس آنے پر بتایا کہ ”میں نیویارک کے ایک فٹ پاتھ پر سگریٹ کے مرغولے اڑانے اور اسکی راکھ کو ہوا میں بکھیرنے کے بعد یہ سوچ رہا تھا کہ اگر بچا کچا سگریٹ یہیں پھینک دیا تو جرمانہ ہوجائے گا، اسلئے کوشش یہی تھی کہ نظر بچاکر فلٹر کو کسی پودے کی آڑ میں پھینک دیا جائے۔ اسی دوران میں نے سامنے سے آتے ہوئے ایک سیاہ فام غریب سے نوجوان کو دیکھا جو نہ جانے کن خیالوں میں گم ایک ہاتھ میں سگریٹ اور دوسرے ہاتھ میں بیئر کا خالی کین لئے سامنے سے آرہا تھا اور وہ سوچوں میں غرق ہونے کے باوجود سگریٹ کی راکھ کو بیئر کے خالی کین میں ڈال رہا تھا۔“
بظاہر یہ ایک معمولی واقعہ ہے لیکن اگر ہر دوسرا شخص ایسی ہی معمولی سی احتیاط برتے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم غیر قدرتی حیاتیاتی تنوع کا سبب بننے والے عوامل پر بڑی حد تک قابو پا سکتے ہیں۔ مثلًا اگر ہم بیکار شاپنگ بیگ کو گرہ لگا کر کچرہ دان میںپھینکیں تو یہ پانی کی نکاسی میں رکاوٹ بن کر انسانی و حیوانی حیات کیلئے مہلک ثابت ہونے والے جراثیم کی افزائش کا سبب نہیں بن سکے گا۔ فالتو بہتے ہوئے صاف پانی کو روکنے اور خراب نل ٹھیک کروا لینے سے ہم زیر زمین پانی کے ان ذخائر کو محفوظ بنا سکتے ہیں جن کی موجودگی درختوں، خاتمے کے قریب پہنچنے والے جنگلات اور جنگلی حیات کی نشوونما میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کی مثال سندہ کی منچھر جھیل کا تیزی سے کم ہوتا وہ پانی ہے جو ہر موسم سرما میں ہزاروں کلومیٹر دور سائبیریا سے آنے والے آبی پرندوں کی پناہ گاہ کا کام دیتا ہے۔ ہم اسی دنیا کی ایک اکائی ہیں، اس لئے ہمیں بھی اس بارے میں سوچنا ہے اور مثبت عمل بھی کرنا ہے، کیونکہ سوچنا اور اقدامات اٹھانا صرف حکومت کا کام نہیں۔
 

No comments:

Post a Comment