Volume 2, Issue 2
کائنات کو مسخر کرنے اور ستاروں پر کمندڈالنے کی آرزو انسانی فطرت کا جزوِ لا ینفک بنتی جارہی ہے،نِت نئی سائنسی ایجادات جہاں انسان کوآسانیاں دے رہی ہیں وہاں سہل کوش بھی بنارہی ہیں۔انسانی سوچ سے لے کرمظاہرِ فطرت تک آلودگی کا قبضہ بڑھ رہا ہے۔ گردوغبار، بے ہنگم شور اور اور دھوئیں سے ابھی توشامیں تاریک ہو رہی ہےں، بروقت اس کا سدِباب نہ ہوا تو دنیا بھی تاریک ہو جائے گی، اور زہریلے مواد اور تابکار شعاعوں سے انسانیت کے تاروپَو بکھر جائیں گے۔ ض ±عفِ سماعت، دمہ، السر اور کینسر جیسے امراض سے تمتماتے چہروں کی ضوفشانیاں ماند پڑ رہی ہیں اور معصوم کلیاں مرجھارہی ہیں۔ بقول کسے!چاروں طرف ہیں گوش خراشی کے سلسلے اک شورآٹھ پہر ہے اور ہم ہیں دوستو کتنی تباہ کار ہیں یہ تابکاریاں افزودگی کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو
انسانیت معرضِ ارتقاءمیں ہے، ہر لمحہ اپنے دامن میں ہوش ر ±با واقعات اورایجادات لے کر ظاہر ہورہاہے،ترقی کے اس عروج پر پہنچنے سے پہلے انسان اور انسانیت ساتھ ساتھ چلتے رہے، پھر نگاہِ فطرت نے دیکھا کہ انسان جیت گیا اور انسانیت ہار گئی، اس کی جگہ مصنوعات نے لے لی، انسان انسان کا دشمن ہوا، جدیدیت کی لہر نے اَقدار سے د ±ور کر دیا، افکار پر عمل کی گرفت کمزور ہوئی، بیگانگی کا دور دورہ ہوا، ادائیگیئِ فرائض کی جگہ طلبِ حقوق نے لے لی، مشینی دور میں انسان کا خون اور عزت و عصمت ارزاں ہوگئے، میزائل اور ایٹم کی آمد نے سوچ کا ر ±خ اور عمل کا دھارا بدل ڈالا، ذہن اتنے آلودہ ہوئے کہ دوسروں کو کچلنا عصرِ حاضر کا وطیرہ بن گیا۔ ایٹم کی ایٹم سے ٹکراﺅ کی تباہ کاریاں، بڑی بڑی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں، سمندروں اور دریاﺅں میں گرنے والا زہریلا پانی اور گندگی بھی تو عصرِ حاضر کے تحفے ہیں۔ جو اس سرسبزوشادات ہری بھری، لہلہاتی، مہکتی مہکاتی دنیا کوآتشِ نار بنارہے ہیں۔
پہلے انسان تھا ایٹم نہ تھا، پھر انسان اور ایٹم ساتھ ساتھ چلے، مگر افسوس کہ شائد آئندہ ایٹم ہو اور انسان نہ ہو۔ مصنوعات ہوں اور صانع نہ ہو یا پھر انسان ہو احساس نہ ہو۔ انسان ہو ضرویاتِ انسان نہ ہوں۔ زندگی ہو زندہ دلی نہ ہو۔ ہوا ہو پر صاف نہ ہو، پانی ہو پر شفاف نہ ہو۔ یایوں کہیے کہ انسان کو آسودگی بھی حاصل ہو اور آلودگی بھی حاصل ہو تو اس وقت زندگی کس نہج اور کس ڈگر پر استوار ہو گی؟ بقول علامہ اقبال کہ ہے دلوں کے لیے موت مشینوں کی حکومت احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات۔
آفاقی افزودگیءحرارت کا نظریہ جہاں کو جس تباہی کے دہانے پر لے آیا ہے، اس سے نکلنے کی سبیل کیا ہے؟ آلودگی پر قابو پانے کا طریقہ کیا ہے؟ کیا اس ضمن میں کوئی ٹھوس لائحہ عمل وضع کیا گیا ہے ؟ یا صرف تنظیم سازی اور نششت و برخاست ہی مطمعِ نظر ہے؟ زمینی حقائق کیا ہیں؟اور اس پر قابوپانے کی حکمتِ عملی کیا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر غور کیے بغیر ہم نفس مسئلہ پر کوئی واضح قدم نہیں اٹھا سکتے۔ متبادل توانائی کے ایسے ذرائع کا کھوج لگانا بہت ضروری ہے، جس میں توانائی کم سے کم استعمال ہو، اور آلودگی بھی کم سے کم ہو۔
ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جو بلاامتیازِ رنگ ونسل، تمام اقوام افرادپر یکساں لاگو ہو۔ اقوامِ متحدہ سے لے کر تمام ممالک کے انفرادی قوانین تک، سب اس کے پابند ہوں۔ ان انقلابی اقدامات کے بغیر دنیا کو تباہی کے دہانے پہنچنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ گلیشیرز پر برفانی تودوں کا تیزی کے ساتھ پگھلنا اور موسم سرما کے دورانیے کا کم ہونا کسی بڑے انقلاب کی نوید سنا رہا ہے۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ماضی میں قدرتی وسائل کا جو ضیاع ہوا ہے اس کا کفارہ شجرکاری مہم کے ذریعے ادا کیا جائے۔ انفرادی سطح پر ہرشخص اپنا کردار ادا کرے اور ان اشیاءکا استعمال اگر ترک کرنا ممکن نہ ہو تو کم ضرور کر دے جو آلودگی کا باعث بن رہی ہیں۔
ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اگر بہتر نہیں تو پھر کم از ویسی دنیا تو دے سکتے ہیںجیسی ہمیں ملی تھی، یعنی کم آلودہ اور صاف اور پاک ہیروشیما اور ناگا ساکی تاریخِ انسانی پروہ گھاﺅ ہے جس کے اثرات آج تک باقی ہیں، 1945ءمیں پھیلائی گئی آلودگی آج تک وہاں شفاف فضاءکی دشمنی کر رہی ہے، نہ درخت ہیں اور نہ سبزہ، محسوس ہوتا ہے جیسے انسانیت اپاہج اور مفلوج ہوگئی ہے۔ تابکاری اور درجہ حرارت کی بڑھوتری سے زیرِ زمین پانی کی سطح گِر رہی ہے، آبی ذخائر میں کمی آرہی ہے اور نہری نظام متاثر ہورہا ہے، اگر بروقت زمین کا درجہءِ حرارت کنٹرول نہ ہوا تو تیسری عالمی جنگ پانی پر متوقع ہے۔
No comments:
Post a Comment