January 11, 2011

تیل کی خاطر جنگیں

Part 2
Volume 2, Issue 2
دنیا بھر میں تیل کے حوالے سے سعودی عرب ابھی تک پہلے نمبر پر ہے دوسری طرف حیرت انگیز طور پر ایران دوسرے نمبر پر آگیا ہے اس سے پہلے عراق کو تیل کے ذخائر کے حوالے سے دوسرے نمبر پر سمجھا جاتا تھا یاد رہے اس وقت دنیا میں روزانہ آٹھ کڑور بیرل تیل نکالا جا رہا ہے جسکا گوشوارہ علیحہدہ دیا جا رہا ہے جس دنیا کے مختلف تیل نکالے جانے والی مقدار پوزیشن اور مجموعی ذخائر کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے گزشتہ تین دہایوں میں تیل کی پیداوار میں کمی کے باعث امریکہ بیرونی دنیا کا محتاج ہو کر رہ گیا ہے بین الاقوامی رپورٹ ے مطابق 1970 ءمیں امریکہ میںتیل کی پیداوار تین ارب بیرل سالانہ سے زائد تھی لیکن 2002 ءمیں یہ پیداوار 33 فی صد کم ہوکر دو ارب بیرل سالانہ ہوگئی ہے۔ دوسری طرف 2002 ءامریکہ میں سالانہ تیل کی کھپت 7ارب 19کروڑ 10لاکھ بیرل سالانہ ہے جس کو پورا کرنے کے لئے وہ بیرونی دنیا محتاج ہے۔ماہرین نے تخمینہ لگایا ہے کہ چونکہ امریکہ میں تیل کی پیداوار میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اور یہی رجحان جاری رہا تو 2025ءمیںپیداوار اور کھپت میں فرق 8.25رب بیرل تک پہنچ جائے گا۔امریکہ اس وقت دنیا میں تیل کی کھپت کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے۔تیل کی کھپت کے حوالے سے ایک عالمی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2002ءکے دستیاب اعدادوشمار کے مطابق امریکہ میں اس وقت مجموعی طور سات ارب انیس کروڑ دس لاکھ بیرل تیل سالانہ استعمال کیا جا رہا ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے اس کے علاوہ چین اور جاپان ایک ارب 93کروڑ 50لاکھ بیرل تیل استعمال کرتے ہیں جبکہ روس 98کروڑ 50لاکھ بیرل تیل کے استعمال سے تیسرے نمبر پر ہے اور جرمنی 94کروڑ 90لاکھ بیرل کے ساتھ چوتھے نمبر ہے۔2002ءمیں دیے گءاعدادوشمار کے مطابق روس تیل کی پیداوار کے حوالے سے سب ے آگے ہے جس کی سالانہ تیل کی پیداوار 2ارب 70کروڑ 30 لاکھ بیرل ہے جبکہ دوسرے نمبر پر سعودی عرب ہے جہاں پر2ارب 50کروڑ بیرل تیل نکالا جاتا ہے اور اس حوالے سے تیسرے نمبر ہے یہاں سے 2 ارب 25کروڑ 20لاکھ بیرل سالانہ تیل نکلتا ہے اور امریکہ 2ارب 9کروڑ 70لاکھ بیرل تیل کے ساتھ چوتھے نمبر ہے جبکہ چین 1ارب 24کروڑ 30لاکھ بیرل کے ساتھ پانچویں نمبر ہے۔اب سعودی عرب کے تیل کے ذخائر کم ہونا شروع ہو گئے ہیں اور بعض کنوﺅں سے تیل کی بجائے پانی کا نکلنا ان کی مدت کے خاتمہ کی علامتیں ہیں۔2020ءتک خلیج فارس (ایران ) عالمی منڈی میں دنیا کو دو تہائی تیل برآمد کرے گا۔ ان خیالات کا اظہار پٹرولیم ماہرین نے سستے تیل کے خاتمے کے موضوع پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا ہے۔ ہاوسٹن انرجی انوسٹمنٹ ایڈوائزری بینک سمینز انیڈ کیمپنی کے صدر میتھیو سمنز نے کہا کہ ہم سب کے ذہنوں میں یہ احساس شدت پکڑتا رہا ہے کہ سعودی عرب کے پاس تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے کیونکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے وہاں کوئی آئل فیلڈدریافت نہیں ہوئی ہے انہوں نے سعودی عرب کے بارے میں دستیاب ٹیکنیکل رپورٹوں کے حوالے سے بتایا کہ مشکلات بڑھ رہی ہے۔ انہوںنے بتایا کہ جب کسی کنویں سے تیل کی بجائے پانی نکلنا شروع ہو جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہاس کی مدت پوری ہو چکی ہے اور سعودی عرب میں بھی ایسا ہو رہا ہے دوسری طرف یونایٹیڈسٹیٹس جیالو جیکل سروے کے مطابق دنیا میں اس وقت پچاس فیصد تیل باقی رہ گیا ہے جس کا بڑا حصہ مشرقی وسطی میں موجودہے سروے کے مطابق ابھی بہت سے ذخائر مزید دریافت ہونا باقی ہیں امریکی حکومت کے ادارے انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہااگلے بیس سالوں میں خلیج فارس کا علاقہ عالمی منڈی میںدو تہائی تیل برآمد کرے گا یاد رہے کہ 1973ءسے پہلے دنیا میں تیل کی پیداوار اور برآمدات مذکورہ علاقے سے اسی تناسب سے ہوتی تھیں۔ تیل کے ذخائر میں روز افزوں ہونیوالی کمی کے باعث تیل کی بڑھتی ہوئی قمیتوں نے عالمی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے ماہرین کے مطابق اب یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ تیل کی عالمی پیداوار کب عروج پر پہنچے گئی یا تیل کی پیداوار کا نقطہ عروج گزر چکا ہے اسکے بارے میں مختلف عالمی تحقیقی اداروں نے مختلف آراءکا اظہار کیا ہے اوکرج نیشنل لیبارٹی کے ڈیوڈ گرین نے برطانوی ارضیاتی ادارے کیمپ بیل کی تحقیق کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا میںتیل کی پیداوار یورپ اور افریقہ میں 2016 ءمیں عروج پر پہنچ جائے گئی جبکہ مشرقی وسطی میں تیل کی پیداوار کا یہی عروج 2006 ءمیں ہو گا دوسری طرف امریکی جیالو جیکل سروے کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے گرین نے کہا ہے کہ تیل کی پیداوار 2040 ءمیں اپنے عروج کو پہنچے گئی دنیا میںاس وقت تیل کی پیداوار کے سلسلے مشرقی وسطی پر انحصار کیے ہوئے ہیں لیکن دوسرے ماہرین نے کہا ہے گرین کے تجزیے سے صورتحال حوصلہ افزائی ہوئی ہے انہوں نے کہا کہ اس سے ایک بات واضع ہوئی ہے کہ دنیا اب تیل کی قلت پر قابو پانے کے لیے کوششیں تیز کرنے پر متفق ہو چکی ہے کیونکہ وقت تھوڑا رہ گیا ہے۔
 

No comments:

Post a Comment