ملکی صورتحال سب پر عیاں ہے، ہر معاملہ گھمبیر ہے، ہر معاملہ پھنسا پھنسا ہے۔ جزوقتی بنیادوں پر ملکی مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے لیکن مستقل بنیادوں کے حال کا کوئی تذکرہ ہی نہیں ملتا ہے۔ زراعت کا میدان ہو یا فضائی ماحول، توانائی کی بات ہو یا انفوکمیونیکیشن کے معاملات ہر طرف آوے کا آوا ہی بگڑا نظر آتا ہے۔ ہر طرف عجیب گومگوں کی صورتحال ہے۔
ہم مشکل آنے سے پہلے سوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں لیکن مشکل آنے کے بعد مشکل کا رونا روتے ہیں، مشکل آنے سے پہلے مشکل کا حل تلاش کرنا ہمارے معمولات سے باہر ہوتا جارہا ہے۔
گزشتہ چند سالوں سے آنے والا چینی کا بحران تا حال جاری ہے۔ جزوقتی حل کیلئے چینی درآمد کرلی جاتی ہے لیکن مشکل تو اپنی جگہ باقی رہتی ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ چینی کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ساٹھ سالوں میں گنے کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا جاسکا ہے۔ ساٹھ سال پہلے ہماری فی ہیکٹر گنے کی پیداوار ۵۳ میٹرک ٹن تھی جو آج فقط ۵۱ میٹرک ٹن اضافے کے ساتھ ۰۵ میٹرک ٹن فی ہیکٹر تک پہنچ سکی ہے۔
یہ تو گنے اور چینی کا معاملہ تھا، اگر توانائی کی پیداوار، گنجائش اور کھپت کا موازنہ کریں تو کچھ ایسی ہی صورتحال بلکہ اس سے بھی خراب تصویر دکھائی دیتی ہے۔
۸۰۰۲ میں بجلی کی پیداواری گنجائش ۶۴۱۳۱ میگاواٹ جبکہ ضرورت ۴۸۴۶۱ میگاواٹ تھی اسطرح صرف ۸۳۳۳ میگاواٹ کا فرق تھا، ۵۱۰۲ تک یہ صورتحال کم و بیش اسی طرح متوقع ہے۔ لیکن تقابلی جائزے کے تحت ۰۲۰۲ میں ہماری متوقع پیداوار ۱۸۴۷۲ میگاواٹ جبکہ متوقع ضرورت ۲۳۱۱۴ میگاواٹ ہوگی، یوں ۱۵۶۳۱ میگاواٹ کا فرق متوقع ہے، جو موجودہ فرق سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔ اعداد کی اس جمع تفریق سے صورتحال ازخود واضح ہوجاتی ہے کہ ہمارا آئندہ لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے۔
ہمارے پاس دنیا کے بہترین دماغ موجود ہیں، ہمارے بنائے گئے منصوبوں کی مدد سے دنیا کے دیگر ممالک ترقی کرتے ہوئے ہم سے بہت آگے نکل گئے ہیں، ہمارے سائنسداں اور ماہرین بیرون ملک جاکر اپنی صلاحیتوں سے دوسروں کو فائدہ پہنچارہے ہیں۔ اس سب کی وجہ ان کی اپنے وطن سے محبت میں کمی نہیں ہے، اگر ہمارے باصلاحیت افراد کو کوئی مسئلہ ہے تو وہ صرف مواقع ملنے کا۔ ہم اپنے باصلاحیت افراد کی قدر نہیں کرتے ہیں۔
حکومتی سطح پر ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کے لئے ادارے تو موجود ہیں پر ان اداروں میں براجمان اربابِ اختیار خود جذبہ حب الوطنی سے عاری دکھائی دیتے ہیں۔ یہ احباب ملک کے باصلاحیت افراد کی حوصلہ افزائی تو کجا ان کی حوصلہ شکنی کرنے کے در پہ دکھائی دیتے ہیں۔ اب ایسے میں اگر کوئی بھی کوشش کی جاتی ہے تو وہ سوائے آپھنسے کا معاملہ اور کچھ نہیں ہے۔
ہم مشکل آنے سے پہلے سوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں لیکن مشکل آنے کے بعد مشکل کا رونا روتے ہیں، مشکل آنے سے پہلے مشکل کا حل تلاش کرنا ہمارے معمولات سے باہر ہوتا جارہا ہے۔
گزشتہ چند سالوں سے آنے والا چینی کا بحران تا حال جاری ہے۔ جزوقتی حل کیلئے چینی درآمد کرلی جاتی ہے لیکن مشکل تو اپنی جگہ باقی رہتی ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ چینی کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ساٹھ سالوں میں گنے کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا جاسکا ہے۔ ساٹھ سال پہلے ہماری فی ہیکٹر گنے کی پیداوار ۵۳ میٹرک ٹن تھی جو آج فقط ۵۱ میٹرک ٹن اضافے کے ساتھ ۰۵ میٹرک ٹن فی ہیکٹر تک پہنچ سکی ہے۔
یہ تو گنے اور چینی کا معاملہ تھا، اگر توانائی کی پیداوار، گنجائش اور کھپت کا موازنہ کریں تو کچھ ایسی ہی صورتحال بلکہ اس سے بھی خراب تصویر دکھائی دیتی ہے۔
۸۰۰۲ میں بجلی کی پیداواری گنجائش ۶۴۱۳۱ میگاواٹ جبکہ ضرورت ۴۸۴۶۱ میگاواٹ تھی اسطرح صرف ۸۳۳۳ میگاواٹ کا فرق تھا، ۵۱۰۲ تک یہ صورتحال کم و بیش اسی طرح متوقع ہے۔ لیکن تقابلی جائزے کے تحت ۰۲۰۲ میں ہماری متوقع پیداوار ۱۸۴۷۲ میگاواٹ جبکہ متوقع ضرورت ۲۳۱۱۴ میگاواٹ ہوگی، یوں ۱۵۶۳۱ میگاواٹ کا فرق متوقع ہے، جو موجودہ فرق سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔ اعداد کی اس جمع تفریق سے صورتحال ازخود واضح ہوجاتی ہے کہ ہمارا آئندہ لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے۔
ہمارے پاس دنیا کے بہترین دماغ موجود ہیں، ہمارے بنائے گئے منصوبوں کی مدد سے دنیا کے دیگر ممالک ترقی کرتے ہوئے ہم سے بہت آگے نکل گئے ہیں، ہمارے سائنسداں اور ماہرین بیرون ملک جاکر اپنی صلاحیتوں سے دوسروں کو فائدہ پہنچارہے ہیں۔ اس سب کی وجہ ان کی اپنے وطن سے محبت میں کمی نہیں ہے، اگر ہمارے باصلاحیت افراد کو کوئی مسئلہ ہے تو وہ صرف مواقع ملنے کا۔ ہم اپنے باصلاحیت افراد کی قدر نہیں کرتے ہیں۔
حکومتی سطح پر ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کے لئے ادارے تو موجود ہیں پر ان اداروں میں براجمان اربابِ اختیار خود جذبہ حب الوطنی سے عاری دکھائی دیتے ہیں۔ یہ احباب ملک کے باصلاحیت افراد کی حوصلہ افزائی تو کجا ان کی حوصلہ شکنی کرنے کے در پہ دکھائی دیتے ہیں۔ اب ایسے میں اگر کوئی بھی کوشش کی جاتی ہے تو وہ سوائے آپھنسے کا معاملہ اور کچھ نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment