January 02, 2011

انٹرنیٹ کا آزادانہ استعمال؟..(Part 2)(Volume 2, Issue 1)



انٹرنیٹ مختلف مذہبی تحریکوں اور مذاہب کے درمیان نہ صرف بات چیت کا ذریعہ ہے بلکہ بعض اوقات یہ جنگ کا میدان بھی بنا ڈالتا ہے۔ شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان لڑائی میں ان کی متعلقہ ویب سائٹس کو بھی غیر قانونی کہا گیا اور نشانہ بنایا گیا۔ کچھ عیسائی ویب سائٹس کو بند کیا گیا جو مسلمانوں کو عیسائت کی ترغیب دیتی تھیں۔
دوسری طرف’ مذہبی اقلیتیں’ جیسا کہ قدیم مصری عیسائی اپنے طرز زندگی اور خطے کے بعض ممالک میں پائی جانے والی مذہبی جنونیت کے خلاف اپنے مذہب پر کاربندی کے لیے انٹرنیٹ پر بہت زیادہ متحرک ہیں۔
انٹرنیٹ پر انفارمیشن کے دو طرفہ بہاوءکی ایک اور مثال سوشل میڈیا ہے جس میں ہم جنس پرستوں کی جاندار موجودگی ہے۔ ان کو ہراساں کرنے کے لیے دستاویزات کے تحت تمام دنیا کے ممالک میں گرفتاریاں کی گئیں۔ اس کمیونٹی کے صارفین کے درمیان حقیقی دنیا میں محتاط طرز عمل کی آن لائن اشاعت’ آن لائن سفر اور اس سے بھی بڑھ کر ہم خیال لوگوں کے ملنے اور ایونٹس کے بارے تبادلہ خیال کی جگہ بھی موجود ہے۔
اس پس منظر میں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مصر میں “انٹرنیٹ پولیس” نے اپنا رخ اور ذرائع اس کمیونٹی کی جانب موڑ دیا تھا۔ ایسے لوگوں کے ملنے کی انٹرنیٹ پر موجود جھوٹی خبروں پر چھاپے بھی مارے گئے۔ اور بعد میں ان اطلاعات کے فراہم کنندہ گرفتار کیے گئے۔
سوشل میڈیا مشرق وسطی میں ایک زبردست تبدیلی لایا۔ یو ٹیوب پر مظاہروں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ویڈیوز شائع کی گئیں۔ فیس بک کے ذریعے گروپس کو دباوءپیدا کرنے اور اسے بڑھانے کا ایسا پلیٹ فارم ملا کہ بعض اوقات نوبت عملی طور پر گلیوں تک آ پہنچی۔ ٹویٹر خبروں کی بروقت اور تیز تر ترسیل کے لیے استعمال کیا گیا۔
سوشل میڈیا نیٹ ورکس عوامی بے چینی کے اظہار کا اہم ذریعہ ہیں کیونکہ یہ تیزی سے بڑے پیمانے پر خبریں لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ یہ آرگنائزر اور فالوورز کے درمیان پیغامات کی ترسیل کو ممکن بناتے ہیں تا کہ بڑے پیمانے پر ہم آہنگ تحریک پیدا کی جا سکے۔ اس طرح سوشل میڈیا خفیہ’ ونمیءاور خودمختار پیغامات کا خفیہ نیٹ ورک ہے جو ٹیکنالوجی کی شکل میں سرکاری ذرائع اطلاعات کا ایک طرح سے نعم البدل بھی ہے۔
یہ نیٹ ورک مشرق وسطی کا چہرہ بدل رہا ہے اور حکومت اور عوام کے درمیان طاقت کا عدم توازن پیدا کر رہا ہے۔ پہلی بار مسلمان ذاتی رشتے بنا رہے ہیں جو روایتی مسلم خاندان میں نا ممکن ہے۔ غیر شادی شدہ لوگ کسی دوست سے روزمرہ زندگی کے معاملات بارے بات کر سکتے ہیں۔ نوجوان ممنوعہ مواد تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ میوزک ویڈیوز’ مذہبی تبلیغ اور اشتہا انگیزی کی سائٹس۔
شام جو 2007ءتک مشرق وسطی کا سب سے بڑا قیدی” کہلاتا تھا’ وہاں بھی سوشل نیٹ ورکس کے ذریعے وہ آوازیں گونج رہی ہیں جو سرکاری میڈیا میں کبھی سنائی نہیں دیں تھیں۔ فیس بک پر کچھ شامی گروپس ملک میں تبدیلی لانے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ ایک آن لائن مہم قابل تحسین ہے جس میں ایک ٹین ایجر لڑکی کی عصمت دری کا بچوں کے جنسی استحصال کے حوالے سے تذکرہ کیا گیا۔ ایک اور مثال اس مہم کی ہے جس کے ذریعے ایک مہنگی اور ناقص موبائل فون کمپنی کا بلاگرز کے ذریعے بائکاٹ کیا گیا۔ اس کے علاوہ ایسے گروپس بھی ہیں جو پکڑے جانے والے بلاگرز کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کر کے ان کو چھڑاتے ہیں۔ شام میں گروپس یو ٹیوب پر ویڈیوز کے ذریعے کرد اقلیت کے ظلم و ستم دکھاتے ہیں۔
مشرق وسطی میں بلاگز کا منظر نامہ بہت فعال حیثیت رکھتا ہے اور تقریبا 600000 بلاگز عربی میں بنائے جا چکے ہیں۔ ان میں سے ایک چوتھائی اس وقت فعال ہیں جب کہ ایک تہائی کا تعلق مصر سے ہے جہاں مشرق وسطی میں سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والے سب سے زیادہ ہیں۔ اس علاقے کو مقامی معاملات کے بارے میں معلومات پیدا کرنے اور حاصل کرنے کے لئے بنیادی طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ تمام عرب دنیا کو متحد کرنے والا واحد موضوع اسرائیل فلسطین تنازعہ ہے۔
ایران واقعات کو پیدا کرنے اور ان کے بارے میں خبر دینے کے حوالے سے انٹرنیٹ کی طاقت کی ایک اور مثال ہے۔ جون 2009 ءمیں چاروں امیدواروں نے اپنے حامیوں تک رسائی کے لیے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال کیا جو ایران میں انٹرنیٹ کے پھیلاﺅ کا ثبوت ہے۔ امیدواروں کے فیس بک صفحات اور یو ٹیوب چینلز تھے جہاں واقعات’ ریلیوں اور تقریروں کی ویڈیوز شائع کی گئیں اور فلکر پر تصویریں دکھائی گئیں۔
ایران میں انٹرنیٹ کی طاقت الیکشن کے بعد ظاہر ہوئی جب حکومت کے خلاف جدوجہد میں سوشل میڈیا نیٹ ورکس ہیرو بنے۔ موساوی کے حامی گلیوں میں نکل آئے اور انٹرنیٹ کو انہوں نے کال کے لیے استعمال کیا۔ انہوں نے مظاہروں اور حکومتی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کو فلمایا۔مظاہرین نے گلیوں سے اپنے موبائل فون کے ذریعے ٹویٹر کو استعمال کرتے ہوئے باقی دنیا کو معلومات فراہم کیں۔ ایک ویڈیو نے ندا سلطان کو جدوجہد کی علامت بنا دیا جس میں اسے گولی لگنے سے ایک منٹ پہلے کا منظر ہے۔ اگر یہ ویڈیو یو ٹیوب پر اپ لوڈ نہ ہوئی ہوتی تو شاید کوئی اس کی موت کے بارے جانتا تک نہ ہوتا۔ اور وہ اس راہ کی شہید اور ہیرو نہ کہلاتی۔
پکاسا اور فلکر کو ہر قسم کی تصویریں اپ لوڈ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ (جیسا کہ عام زندگی کے واقعات تا مظاہروں’ انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور گرفتاریوں کے واقعات وغیرہ وغیرہ )مشرق وسطی کے ممالک میں سوشل میڈیا نیٹ ورکس کا خبروں کی ترسیل کے لیے بطور متبادل اور کبھی کبھی بطور واحد ذریعہ استعمال وہاں پر قائم قوانین سے لوگوں کے اختلاف کو ظاہر کرتا ہے اور وہاں کی حکومت کی خبروں پر گرفت کو کمزور کرتا ہے۔ انٹرنیٹ وہاں کی حکومتوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ آن لائن حتی کہ موبائل فون سرگرمیوں کو روکنے اور بے اثر کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرے۔
انٹرنیٹ آزادی کے حوالے سے مشرق وسطی کی حکومتیں سب سے زیادہ ظالم ہیں اور جو ان کے مطابق خلاف ورزی ہو اس پر وہ کھل کر رد عمل ظاہر کرتی ہیں۔ گرفتاریاں’ دھمکیاں’ سائٹس اور بلاگز کی بندش ،یہ سب کچھ ہو چکا ہے۔ رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز (RWB) نے 17 ممالک کو “انٹرنیٹ دشمن” یا “زیر مشاہدہ” قرار دیا ہے۔ ان میں سے 7 ممالک کا تعلق مشرق وسطی اور شمالی افریقہ سے ہے۔ بلاگرز کے لیے خطرناک قرار دئیے جانے والے 10 میں سے 5 کا تعلق مشرق وسطی سے ہے؛ مصر’ شام’ ایران’ سعودی عرب اور تیونس۔ ان حکومتوں نے سینکڑوں نہیں تو درجنوں بلاگرز گرفتار کیے ہیں۔
یو ٹیوب مشرق وسطی میں سب سے زیادہ بلاک کی جانے والی سائٹ سمجھی جاتی ہے کیونکہ اس پر ہر طرح کی ویڈیوز موجود ہوتی ہیں۔ ان میں سے کچھ ویڈیوز ایسی ہیں جو اس خطے کے اکثر ممالک کے سماجی’ ثقافتی اور مذہبی ضابطہ اخلاق سے تضاد کھاتی ہیں اور معلومات اور ثقافت پر حکومتی گرفت کو ختم کرتی ہیں۔ سوڈان اور مراکو میں بغیر کسی وضاحت کے یو ٹیوب بند کر دی گئی ہے۔ شام میں اس سائیٹ کو اس لیے بند کر دیا گیا کہ اس پر کسی تقریب کے موقع پر صدر کی بیوی کا لباس اڑنے کی ویڈیو تھی۔ تیونس میں اس کو اس لیے بند کیا گیا کہ اس پر اس ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ویڈیوز تھیں۔ اور یہ ترکی کے لیے خاص طور پر ایک سچ ہے جہاں یوٹیوب کو اس لیے بند کیا گیا کہ اس پر اتاترک (بابائے ترک) کے نام پر کلنک یونانی ویڈیوز تھیں۔ یہ ممالک یوٹیوب سے مخصوص ویڈیوز کو مٹانے کے لیے رابطہ کرتے رہتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment