ایشاع رشید
ماحولیاتی آلودگی موجودہ دور میں انسان کو درپیش بڑے خطرات میں سے ایک ہے۔ آج کا انسان دوسرے سیاروں پر زندگی کے آثار ڈھونڈنے میں اربوں، کھربوں ڈالر ضائع کر رہا ہے، مگر ماحولیاتی آلودگی سے نجات حاصل کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہا بلکہ مجموعی طور پر انسان کے افعال آلودگی میں مسلسل اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ ماحول کے آلودہ ہونے کی بڑی وجہ جنگلات کا تیزی سے خاتمہ ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی رہائشی ضرورت پوری کرنے، ایندھن، فرنیچر اور کاغذ کی تیاری کے لیے پوری دنیا میں درختوں کو بے رحمی سے کاٹا گیا ،جس کا نتیجہ آج کا انسان آلودہ ہوا کی صورت میں بھگت رہا ہے۔ ایک وہ وقت تھا جب انسانوں کی اکثریت سادہ سی زندگی بسر کر رہی تھی۔ اس وقت لوگوں کی ضروریات کم اور وسائل زیادہ تھے۔ زمین پر درختوں کے وسیع ذخیرے اور کھیتوں میں لہلہاتی فصلیں عجب بہار دکھاتی تھیں۔ دنیا کی بیشتر آبادی کا انحصار زراعت پر تھا۔ پھر پوری دنیا میں صنعتی انقلاب آیا جس سے ملکوں میں خوش حالی تو آئی مگر قدرتی وسائل کا تیزی سے استعمال ہوا اور صنعتوں سے خارج ہونے والے دھوئیں نے فضا اور کیمیائی مادوں نے صاف پانی کو آلودہ کرنا شروع کر دیا۔
مزید یہ کہ سائنس و ٹیکنولوجی کی ترقی، مشینوں کے زیادہ استعمال اور جنگلات کے کٹاﺅ نے زمین کے گرد موجود حفاظتی تہہ اوزون میں شگاف پیدا کر دیا۔ اوزون ہی کی وجہ سے زمین پر سورج کی شعاعیں ترچھی پڑتی ہیں جس سے درجہ حرارت میں اضافہ نہیں ہوتا مگر جب سے امریکا کے قریب اوزون کی تہہ میں شگاف پڑ گیا ہے، زمین کے درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین ماحولیاتی آلودگی سے بچاﺅ کے لےے زیادہ سے زیادہ درخت اور پودے لگانے پر زور دے رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع ہو چکا ہے۔ اکثر ممالک اس مسئلے پر قابو پانے میں کسی نہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو چکے ہیں، مگر ماحولیاتی آلودگی کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ دنیا کے تمام ممالک کو مل کر اس حوالے سے لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔مری کے جنگلات کسی دور میں اتنے خوب صورت اور گھنے ہوا کرتے تھے کہ سورج کی کرنیں بہ مشکل ہی زمین تک پہنچنے کا راستہ تلاش کر پاتی تھیں۔ اس وقت مری کا درجہ حرارت موسم گرما میں بھی انتہائی معتدل ہوا کرتا تھا لیکن اب گرمیوں میں مری کا درجہ حرارت بھی 30 درجے سینٹی گریڈ سے کئی درجے اوپر چلا جاتا ہے۔ یہاں درجہ حرارت میں اضافے کا سبب صرف اور صرف درختوں کا بے تحاشا کٹاﺅ ہے۔ ٹمبر مافیا مری کے جنگلوںکی ہر سال سرکاری چیرائی کے دوران درخت کاٹتا اور انہیں بلیک مارکیٹ میں فروخت کر دیتا ہے۔ یہاں ہر سال سرکاری چیرائی کے دوران خشک درختوں کی کٹائی کی جاتی ہے، مگر ٹمبر مافیا منافع کے لالچ میں خشک اور سوکھے ہوئے درختوں کے علاوہ سرسبز درخت بھی کاٹ لیتا ہے، جس کی وجہ سے درختوں کی تعداد میں خطرناک حد تک کمی ہو رہی ہے۔ ٹمبر مافیا کے علاوہ مقامی افراد ایندھن کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بھی سارا سال درخت کاٹنے کا عمل جاری رکھتے ہیں۔
پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں ماحولیاتی آلودگی خطرناک ترین صورت اختیار کر چکی ہے۔ ہمارے ہاں ماحولیاتی آلودگی کا اہم سبب درختوں کی بے دریغ کٹائی ہے۔ جنگلات جو پاکستان کے صرف 5 فیصد رقبے پر پھیلے ہیں انہیں بھی تیزی سے کاٹا جا رہا ہے۔ درختوں کے کٹاﺅ میں تعمیراتی کمپنیوں اور ٹمبر مافیا کا بڑا ہاتھ ہے۔
مری کے جنگلات میں ہونے والی آتشزدگی نے بھی درختوں اور دیگر جنگلی حیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ یہاں بہت سے ایسے درخت ہیں جن میں پائن فیڈل کی کئی انچ موٹی تہہ پائی جاتی ہے۔ اس وجہ سے مئی اور جون کے مہینوں میں سورج کی تپش کی وجہ سے یہ درخت آگ پکڑ لیتے ہیں۔ اس آگ کی شدت اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ جلنے کے عمل سے جو بو پیدا ہوتی ہے وہ دور دراز کے دیہاتوں تک محسوس کی جا سکتی ہے۔ اس آتشزدگی کے نتیجے میں مری کے قیمتی اور خوب صورت درخت ہی تباہ نہیں ہوتے بلکہ بیجوں کی قدرتی طور پر پیدا ہونے والی پنیری کے ذخائر بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔ مصنوعی شجر کاری کی نسبت قدرتی بیجوں کی پنیری سے پودے زیادہ پھلتے پھولتے ہیں۔ اس آتشزدگی کے نتیجے میں کیل اور چیل کے وہ درخت بھی جل جاتے ہیں جنہیں جوان ہونے کے لیے ایک ڈیڑھ صدی کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔
جنگلات ماحول کو ٹھنڈا اور خوشگوار بنانے، آکسیجن کی زیادہ مقدار فراہم کرنے اور عمارتی لکڑی حاصل کرنے کے لیے ہی ضروری نہیں بلکہ یہاں انواع و اقسام کے پرندے، جانور اور حشرات الارض بھی پرورش پاتے ہیں۔ جنگلات میں پیدا ہونے والی جڑی بوٹیاں، پھل پھول، شہد اور دیگر اشیاءانسان کی بہت سی ضروریات پوری کرتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جنگلات پانی کی فراہمی کا ذریعہ بنتے ہیں جو انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے۔ جن علاقوں میں جنگلات زیادہ ہوتے ہیں وہاں بارشیں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ بارش کا پانی جنگلات میں قدرتی طور پر تیار ہونے والی کھاد کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا اور میدانوں میں بکھیر دیتا ہے جس سے میدانی علاقوں کی زمین زرخیز ہو جاتی ہے اور زرعی پیداوار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ زیادہ درختوں والے علاقوں میں بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ہونے والی تباہی کے خطرات بھی کم ہو جاتے ہیں۔ درخت زمین کو کٹاﺅ سے روکتے اور سیلابی پانی کو کنٹرول کر کے تباہی سے بچاتے ہیں۔ ہر ملک کے کم از کم پچیس سے چالیس فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے۔
پاکستان میں یہ تناسب انتہائی کم ہے بلکہ یہاں جنگلات کی تعداد میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔ پاکستان میں صرف آزاد کشمیر میں تقریباً چالیس فیصد رقبے پر جنگلات موجود ہیں، یہاں سب سے قیمتی درخت وادی نیلم میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں دیودار، کائل، فر، بلوط، اخروٹ، چیڑھ اور دیگر کئی اقسام کے قیمتی درخت شامل ہیں۔ آزاد کشمیر کے سالانہ بجٹ کا تقریباً ساٹھ فیصد حصہ ان ہی جنگلات سے حاصل ہوتا ہے۔ یہاں سے حاصل ہونے والے پھل، قیمتی جڑی بوٹیاں، ادویاتی پودے، شہد اور دیگر اجناس سے سالانہ کروڑوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے، مگر ان جنگلات کو بھی سرکاری و غیر سرکاری طور پر بے دردی سے کاٹا جا رہا ہے اور ان کی لکڑی اور دیگر پیداواری اشیاءقانونی و غیر قانونی ہر دو طریقوں سے باہر سمگل کر دی جاتی ہےں۔ ان علاقوں میں ایسی نایاب اور قیمتی جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جو خطرناک امراض کے لیے انتہائی مفید ہیں مگر مقامی لوگ ان کی اہمیت سے ناآشنا ہیں۔ غیر ملکی ماہرین تحقیق کے بہانے ان علاقوں سے قیمتی و نایاب جڑی بوٹیاں اور پودے وغیرہ اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ ان پودوں اور جڑی بوٹیوں سے وہ ادویات تیار کر کے پاکستان سمیت دیگر ممالک کو فروخت کر کے کثیر زرمبادلہ کماتے ہیں۔ یہ جڑی بوٹیاں اتنی قیمتی ہوتی ہیں کہ پاکستان انہیں فروخت کر کے ملکی خزانے میں اضافہ کر سکتا ہے، مگر لاعلمی، جہالت اور بے پرواہی کی وجہ سے اغیار اس قیمتی خزانے کو بلا روک ٹوک چرا لے جاتے ہیں۔
بڑی تعداد میں مویشی پالنے والے افراد بھی اپنی کم علمی، جہالت اور ناسمجھی کی وجہ سے ان جنگلات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ افراد ہزاروں کی تعداد میں بھیڑ، بکریاں، گھوڑے، گدھے اور خچر ان جنگلات میں چرانے کے لیے آتے ہیں۔ یہ مویشی نہ صرف جنگلوں میں اگنے والی جڑی بوٹیوںکوکھاجاتے ہیں بلکہ شجر کاری کے پودوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ افراد جاتے وقت منوں کے حساب سے قیمتی جڑی بوٹیاں اور معدنیات اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ ان کی چیکنگ بھی نہیں کی جاتی اور نہ ہی ان سے کسی قسم کا ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ پاکستان اتنا زرخیز ملک ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے ہر قسم کے قدرتی ذخیرے سے نوازا ہے۔ غیر ملکی ماہرین پاکستان آتے ہیں تو اس خطے میں قدرت کی فیاضی دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں مگر قیادت کے فقدان اور انتظامیہ کی نااہلی کی بنا پر ان ذخائر سے خاطر خواہ فوائد حاصل نہیں کیے جا رہے۔ جنگلات کے کٹاﺅ اور شکار کی وجہ سے جنگلی حیات بھی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق کئی قیمتی اور نایاب جانوروں کی تعداد میں واضح کمی ا?ئی ہے اور بعض جانوروں کی نسلیں تو بالکل ناپید ہونے کے قریب ہیں۔ ان جنگلات میں چیتا، ریچھ، نافہ ہرن، مارخور جیسے جانوروں کے علاوہ مرغ زریں، تیتر اور بے شمار دوسری اقسام کے پرندوں کی تعداد میں خاصی کمی آئی ہے۔
حکومت ہر سال پرجوش انداز میں شجر کاری مہم چلاتی ہے جس پر لاکھوں، کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں مگر افسوس نئے پودوں کی درست اندازے حفاظت نہیں ہوپاتی اورساری محنت بے کارجاتی ہے۔درختوں کی حفاظت کے لئے کم پڑھے لکھے نوجوانوں کو مامور کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح لوگوں کو روزگار بھی ملے گا اور درختوں کی حفاظت بھی ہو گی۔ اس مقصد کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے افراد کی مدد بھی لی جا سکتی ہے۔ ماحول کو بہتر بنانے کے لیے مستقل بنیادوں پر جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ عوام کو بھی چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو اپنے گھروں، گلی محلوں اور سڑکوں پر زیادہ سے زیادہ پودے لگائیں اور درخت کاٹنے والے افراد کی سخت مذمت کریں۔ اسی طرح عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی آلودگی اور گلوبل وارمنگ پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
(بشکریہ روزنامہ اششرق
January 02, 2011
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment