اسلام آباد (سید محمد عابد) متبادل توانائی بورڈ ہمارے ملک کا وہ ادارہ ہے جو پچھلے کئی سالوں سے توانائی پروجیکٹس پر کام کر رہا ہے مگر اب تک اس بورڈ سے کوئی خاص نتائج حاصل نہیں ہوئے ہیں۔ یو ایس ایڈ اور ایس ڈی پی آئی کی مالی معاونت سے ارشاد ایچ عباسی کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان کو گیس کے شدید بحران میں مبتلا کرنے میں متبادل توانائی کا بہت حد تک ہاتھ ہے اور گھریلو سیکٹر میں لوڈشیڈنگ بھی اسی کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ متبادل توانائی بورڈ نے بائیس فرموں کو 1279.5 میگاواٹ ونڈ انرجی پیداوار کے پراجیکٹس لگانے کیلئے لیٹر آف انٹنٹ جاری کیا لیکن یہ بورڈ ان منصوبوں سے بروقت فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا جس سے توانائی کے شعبے میں پاکستان 3692.345 کلوواٹ سے محروم ہوا۔ پچھلے 7 سال کے عرصہ میں متبادل توانائی بورڈ نے صرف 4.8 میگاواٹ ونڈ انرجی ملک کو فراہم کی ہے۔
رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ان 22 پروجیکٹس کا افتتاح 2008ءکے شروع میں کر دیا جاتا تو گھریلو صارفین اور سی این جی کے شعبے کیلئے تین سال میں 196 ارب کیوبک فٹ گیس بچ سکتی تھی۔توانائی پروجیکٹس کو اگر ماہرین کے زیر نگرانی کیا جاتا تو گیس کی متعدد پیداوار کو بچایا جا سکتا تھا۔ قابل تجدید توانائی کی پالیسی 2006ءمیں منظور کی گئی تاہم یہ بات حیران کن ہے کہ ابھی تک توانائی کا کوئی بھی قابل تجدید پراجیکٹ مکمل نہیں ہوا۔اس ادارے کو اپنی گورننس اور موجودہ صلاحیتوں کو دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ یہ اپنے مقررکردہ ہدف کے حصول کی راہ میں کوئی سمجھوتہ نہ کرے۔
متبادل توانائی بورڈ کے قابل تجدید توانائی پراجیکٹ کی ترقی کیلئے اقدامات خاص طور پر سست روی کا شکار ہیں۔بورڈ نے قابل تجدید توانائی کے شعبے میں کوئی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا،ونڈ انرجی کے ذریعے سوائے چند گاﺅں کے بجلی مہیا کرنے کے علاوہ بجلی کی پیداوار میں کوئی خاص اضافہ نہیں کیا گیا ۔پاکستان کے لئے ابھی تک قابل تجربہ توانائی کے حوالے سے لاگت اور منافع کے فوائد کا تجزیہ نہیں کیا گیا جس کے باعث ان تمام ٹیکنولوجیز کی موجودگی عام آدمی کے لئے بے سود اور بے کار ثابت ہوتی ہےں۔ رپورٹ کے مطابق اندازہ ہوتا ہے کہ اداروں کے اندر مانیٹرنگ اور احتساب کا اپنا نظام نہ ہونے کی وجہ سے بورڈ پاکستان میں قابل تجربہ توانائی کی ترقی کی کوششوں کے حوالے سے وقتی معاملات کے طور پر لے رہا ہے۔
ملک میں بیشتر متبادل توانائی پروجیکٹس کو شروع تو کیا جاتاہے مگر ان پروجیکٹ کے مکمل ہوتے ہی مشینری کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور مرمت کا ضیال نہیں رکھا جاتا جس کے سبب مشینری تباہ ہو جاتی ہے، متبادل توانائی بورڈ کی کارکردگی سے صاف ظاہر ہے کہ یہ اپنے پیشہ وارانہ امور میں صحیح کردار ادا نہیں کر رہا۔ رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بورڈ نے متعدد عملی غلطیاں کی ہیں جنہوں نے پاکستان میں قابل تجدید توانائی کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ لاگت اور منافع کے تجزیئے کے مطابق پاکستان میں قابل تجدید توانائی کا بہترین آپشن حیاتیاتی مادے سے اور چھوٹے ہائیڈل پلانٹس سے بجلی پیدا کرنا ہے۔ دوسری طرف ونڈ آئی پی پیز کو بڑے ہائیڈل پلانٹس کے مقابلے کا سامنا ہے اور اس کے بہت سے نقصانات ہیں یہ حقیقت ہے کہ یہ نئی ٹیکنولوجی ہے اور کم درجے کے پلانٹس ہیں۔ ان کی بہت سی مالی پیچیدگیاں ہیں مزید یہ کہ پون آئی پی پیز پراجیکٹ کو نیپرا کے ساتھ ٹیرف معاملات کے حوالے سے بہت طویل مذاکرات کرنے ہوں گے۔
رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ان 22 پروجیکٹس کا افتتاح 2008ءکے شروع میں کر دیا جاتا تو گھریلو صارفین اور سی این جی کے شعبے کیلئے تین سال میں 196 ارب کیوبک فٹ گیس بچ سکتی تھی۔توانائی پروجیکٹس کو اگر ماہرین کے زیر نگرانی کیا جاتا تو گیس کی متعدد پیداوار کو بچایا جا سکتا تھا۔ قابل تجدید توانائی کی پالیسی 2006ءمیں منظور کی گئی تاہم یہ بات حیران کن ہے کہ ابھی تک توانائی کا کوئی بھی قابل تجدید پراجیکٹ مکمل نہیں ہوا۔اس ادارے کو اپنی گورننس اور موجودہ صلاحیتوں کو دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ یہ اپنے مقررکردہ ہدف کے حصول کی راہ میں کوئی سمجھوتہ نہ کرے۔
متبادل توانائی بورڈ کے قابل تجدید توانائی پراجیکٹ کی ترقی کیلئے اقدامات خاص طور پر سست روی کا شکار ہیں۔بورڈ نے قابل تجدید توانائی کے شعبے میں کوئی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا،ونڈ انرجی کے ذریعے سوائے چند گاﺅں کے بجلی مہیا کرنے کے علاوہ بجلی کی پیداوار میں کوئی خاص اضافہ نہیں کیا گیا ۔پاکستان کے لئے ابھی تک قابل تجربہ توانائی کے حوالے سے لاگت اور منافع کے فوائد کا تجزیہ نہیں کیا گیا جس کے باعث ان تمام ٹیکنولوجیز کی موجودگی عام آدمی کے لئے بے سود اور بے کار ثابت ہوتی ہےں۔ رپورٹ کے مطابق اندازہ ہوتا ہے کہ اداروں کے اندر مانیٹرنگ اور احتساب کا اپنا نظام نہ ہونے کی وجہ سے بورڈ پاکستان میں قابل تجربہ توانائی کی ترقی کی کوششوں کے حوالے سے وقتی معاملات کے طور پر لے رہا ہے۔
ملک میں بیشتر متبادل توانائی پروجیکٹس کو شروع تو کیا جاتاہے مگر ان پروجیکٹ کے مکمل ہوتے ہی مشینری کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور مرمت کا ضیال نہیں رکھا جاتا جس کے سبب مشینری تباہ ہو جاتی ہے، متبادل توانائی بورڈ کی کارکردگی سے صاف ظاہر ہے کہ یہ اپنے پیشہ وارانہ امور میں صحیح کردار ادا نہیں کر رہا۔ رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بورڈ نے متعدد عملی غلطیاں کی ہیں جنہوں نے پاکستان میں قابل تجدید توانائی کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ لاگت اور منافع کے تجزیئے کے مطابق پاکستان میں قابل تجدید توانائی کا بہترین آپشن حیاتیاتی مادے سے اور چھوٹے ہائیڈل پلانٹس سے بجلی پیدا کرنا ہے۔ دوسری طرف ونڈ آئی پی پیز کو بڑے ہائیڈل پلانٹس کے مقابلے کا سامنا ہے اور اس کے بہت سے نقصانات ہیں یہ حقیقت ہے کہ یہ نئی ٹیکنولوجی ہے اور کم درجے کے پلانٹس ہیں۔ ان کی بہت سی مالی پیچیدگیاں ہیں مزید یہ کہ پون آئی پی پیز پراجیکٹ کو نیپرا کے ساتھ ٹیرف معاملات کے حوالے سے بہت طویل مذاکرات کرنے ہوں گے۔
No comments:
Post a Comment