December 27, 2010

تھرپاور پروجیکٹ سے گیسی فکیشناپریل 2011ءتک متوقع.....(Issue # 50)



اسلام آباد (ہاجرہ زیدی) تھرکول پاور پروجیکٹ کی گیس فکیشن آئندہ اپریل 2011ءتک متوقع ہے ،پروجیکٹ کی بدولت ملک کو پانچ سو سال تک پچاس ہزار میگاواٹ بجلی میسر ہو گی۔ تھرکول پاور پروجیکٹ معروف سائنسداں ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی زیر نگرانی کام کررہا ہے۔
تھرکول پاور پروجیکٹ کی تعمیراتی سرگرمیاں تیزی سے جاری ہیں،پروجیکٹ کی کامیابی ملک کو توانائی کے بحران سے نکال سکتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق حکومت پاکستان ایک سو میگا واٹ انٹگریٹڈ گیس کمبائنڈ سائیکل (آئی جی سی سی) کا پی سی ون ایکنیک سے منظور کروا چکی ہے اب جلد پاور پلانٹ پر کام شروع کر دیا جائے گا۔
پہلے مرحلے میں گیس کے اخراج کے عمل کو شروع کیا جائے گا اور دوسرے مرحلے میںگیس کی صفائی کا کام کیا جائے گا۔ اس منصوبے پر 500 ملین روپے لاگت آئے گی ۔اس کے بعد تیسرا مرحلہ بجلی پیدا کرنے کا ہو گا۔توقع کی جا رہی ہے کہ 2012 سے 2013 کے درمیان ڈیزائن انسٹالیشن اینڈ کمیشننگ کا کام مکمل کر لیا جائے گا اور اسی وقت ایک سو میگاواٹ بجلی کی کوئلے سے تیاری شروع کر دی جائے گی۔اس پروجیکٹ پر لاگت کا کل تخمینہ 9 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
پاکستان کے صوبہ سندھ میں تھر کے مقام پر موجود کوئلے کے ذخیرے کو دنیا کا ساتواں بڑا ذخیرہ شمار کیا جاتا ہے اور اس ذخیرے میں تقریباَ 175 ملین ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پروجیکٹ کے مکمل ہوتے ہی نہ صرف بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہو گا بلکہ بیشتر نجی کمپنیاں کوئلے سے بجلی حاصل کرنے کے پاور پلانٹ خود لگا سکیں گی اور کارخانوں کو بھی گیس اور بجلی کی سپلائی بلاتعطل کی جا سکے گی۔
دنیا میں چین، آسٹریلیا،جنوبی افریقہ اور روس اور پچاس سے زائد ممالک کوئلے سے بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ورلڈ کول انسٹی ٹیوٹ کے مطابق کوئلے سے بجلی پیدا کرنیو الا سرفہرست ملک جنوبی افریقہ ہے جو اپنی 94 فیصد بجلی کوئلے سے پیدا کرتا ہے، پولینڈ 93، چین 81، آسٹریلیا 76، اسرائیل 71، قازقستان 70، بھارت 68 ، چیک ری پبلک 62، مراکش 57، یونان 55، امریکا 49 جبکہ جرمنی اپنی بجلی کی ضروریات کا 49 فیصد حصہ کوئلے سے حاصل کرتا ہے۔
سید قائم علی شاہ کا تھر پاور پروجیکٹ کے بارے میں کہنا ہے کہ کوئلہ پاور جنریشن کیلئے استعمال کیا جائے گاتاکہ اس سے ملک اور لوگوں کی ضروریات کو فوری پورا کیا جاسکے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا کہنا ہے کہ سندھ کے ریگستان میں جو کوئلہ ہے اس سے آئندہ پانچ سو برسوں تک سالانہ پچاس ہزار میگا واٹ بجلی یا دس کروڑ بیرل ڈیزل یا لاکھوں ٹن کھاد بنائی جا سکتی ہے۔ آئندہ دس برسوں میں پاکستان کی بجلی کی مانگ تیس ہزار میگا واٹ تک ہوسکتی ہے اور تیس ہزار میگا واٹ صرف تھر کول سے دس برسوں میں حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ثمر مبارک کا کہنا تھا کہ کوئلے کو صحرا میں کان کنی کے ذریعے حاصل کرنا قدر مشکل کام ہے۔زیر زمین کوئلے کو جلا کر بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جس سے ملک کی توانائی ضروریات پوری ہو جائیں گی۔
ملک میںبجلی کی طلب میں دن بدن اضافہ ہورہاہے، واپڈا نے جو بجلی پیدا کرنے کے معاہدے کئے ہیں ان کے تحت بجلی ہر مہینے مہنگی کی جا رہی ہے۔ تھر پاور پروجیکٹ کا مکمل ہونا عوام کے لئے سخت ضروری ہے کیونکہ اس پروجیکٹ کے مکمل ہوتے ہی ملک بجلی کے بحران سے چھٹکارا حاصل کرسکے گا۔
واپڈا کے مطابق ملک میں بجلی کی طلب میں سالانہ 8 فیصدکا اضافہ ہورہاہے، یوں ملک کو سالانہ ساڑھے 13 سومیگاواٹ اضافی بجلی درکار ہے جبکہ ملک کو پہلے ہی ایک سے ساڑھے تین ہزار میگاواٹ بجلی کے شارٹ فال کا سامنا ہے جو بعض اوقات چار ہزار سے تجاوز کرجاتا ہے۔ نیز بجلی کی قیمتوں میں بھی روز بروز اضافہ ہورہاہے جس سے ملک میں انرجی کا شدید بحران پیدا ہوچکا ہے۔
پاکستان میں کوئلے کے ذخائرکئی سالوں پہلے ہی دریافت کئے جاچکے تھے ۔ان ذخائر کا استعمال اگر کچھ سال پہلے شروع کر دیا جاتا تو آج پاکستان نہ صرف کوئلے سے بجلی پیدا کر رہا ہوتا بلکہ کوئلہ بیرون ممالک بھی فروخت کیا جارہا ہوتا اور اس سے کثیر زرمبادلہ کمایا جا سکتا تھا۔
 

No comments:

Post a Comment