December 20, 2010

زرعی ٹیکس اور زراعت کی تباہی......(Volume 48)

پاکستان اور زراعت کا جھولی دامن کا ساتھ ہے ،یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کی 70 فیصد سے ذائد آبادی اسی پیشے سے منسلک ہے اور پاکستان زراعت کی بدولت بیرونی منڈیوں سے حاصل ہونے والا زر مبادلہ بھی اچھا خاصا کما رہا ہے۔
پاکستان سے حاصل ہونے والی فصلوں میں کپاس، گنا، گندم اور چاول وہ فصلیں ہیں جن کی بیرونی منڈیوں میں کثیر فروخت ہوتی ہے اور یہ پاکستان کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی اور دنیا کی مشہور فصلیں ہیں۔ پاکستان کے تحقیقی ادارے بھی ان ہی خاص فصلوں کی پیداوار بڑھانے کی طرف اپنی تمام تر توجہ لگائے ہوئے ہیں۔ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد زراعت سے منسلک ہونے کی وجہ سے زراعت کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے حکومت کا فرض ہے کہ وہ کسان اور ملک دونوں کا خیال رکھے، تاکہ نہ تو کسان کو کوئی نقصان ہو اور نہ ہی زرعی اعتبار سے ملک پر کوئی فرق پڑے ۔
حکومت میں جی ایس ٹی ٹیکس کی بات کی جا رہی ہے جس کا شکار زراعت سمیت ملک کی سب ہی چیزیں ہوںگی اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمام زرعی اشیاءمہنگی ہو جائیں گی۔متعدد حالیہ سیلابی نقصانات نے زراعت کو پہلے ہی تباہی کی طرف دکھیل دیا ہے اور اب یہ ٹیکس آگ میں تیل کا کام دے گا۔پاکستان کی زراعت مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی اور زراعت کی تباہی ملک کی تباہی ہے۔ پاکستان مین کسان پہلے ہی غریب ہیں اور وہ بڑی مشکل سے اپنے گھر کا گزارا کرتے ہیں ،روازانہ کہ بڑھتی ہوئی زرعی اشیاءکی قیمتیں غریب کسانوں کے لئے وبال جان بنتی جا رہی ہیں۔کسان سارا سال اپنی فصل پر شدید محنت کرتا ہے ،چاہے گرمی ہو یا سردی کسان کو اپنی فصل منافع بخش کرنے کے لئے بیج ،کھاد، کیڑے مار اسپرے اور ایسے متعدد انتظامات کرنے ہی ہیں۔ ظاہر ہے اگر فصل کی پیداوار بڑھانی ہے تو پانی، بیج اور دیگر چیزوں کا خیال تو رکھنا ہی پڑے گا۔ان سب انتظامات کو کرنے کے لئے سب سے اہم جس چیز کی ضرورت پڑھتی ہے وہ زرعی اشیاءہیں جب ان کو مہنگا کر دیا جائے گا تو کسان کیسے گزارا کرے گاوہ تو اپنی موت آپ ہی مر جائے گا۔
زرعی پیدوار پر ٹیکس لگنے کے بعد زراعت کے ساتھ ساتھ غذائی پیداوار بھی متاثر ہو گی۔حکومت کو کوئی بھی ٹیکس لگانے سے پہلے اس بات کو تو سوچ لینا چاہیے کہ اس کے نفاذ سے کیا ہو گا۔عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبی ہی جا رہی ہے اور حکومت ہے کہ سکون کا سانس لینے ہی نہیں دے رہی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ٹیکس کا نفاذ ہوتے ہی موجودہ پیداوار کم از کم 10 فیصد تک گھٹ جائے گی اور بنیادی خوراک کے نرخ 30 فیصد تک بڑھ جائیں گے اور اس کا سیدھا اثر پاکستان کی زراعت پر پڑے گا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں ظاہر ہونے والے انکشافات کے مطابق صرف ٹیکس کا نفاذ ہونے سے گندم کی قیمت 100 روپے فی 40 کلو گرام تک پہنچ جائے گی جبکہ چاول کی قیمت 300 روپے فی 40 کلو گرام تک بڑھ جائے گی۔
پاکستان، بنگلہ دیش اور یمن جیسے ممالک میں خوراک کا معیار انتہائی ناقص ہے کسان فی ایکڑ 140 کلو گرام کھاد استعمال کرتا ہے جبکہ دوسرے ملکوں میں 300 سے 500 کلو گرام فی ایکڑ کھاد استعمال کی جاتی ہے ۔اگر ان تمام معاملات کو دیکھا جائے اور پھر زراعت پرٹیکس کے نفاذ کے بارے میں سوچا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کرم کش ادویہ‘ بیج‘ کھادوں‘ مشینری اور دیگر اشیاءپر نافذ شدہ ٹیکس کے کیا اثرات کسانوں اور زراعت پر پڑیں گے۔ٹیکس کے نفاذ کے بعد کھادوں کا استعمال مزید کم کر دیا جائے گا جس سے فصلوں کی پیداوار خصوصا گندم کی پیداوار متاثر ہو گی اور اس طرح غذائی پیداوار میں بھی کمی ہو گی۔
زراعت پر ٹیکس کے نفاذ کے باعث پیداوار میں 10 فیصداور خوراک کی قیمتوں میں 30 فیصد اضافہ ہو گا جس کے باعث خوراک کی قیمتیں بھی 60 فیصد تک بڑھ جائیں گی۔ تاہم اس ٹیکس کے نفاذ کو روکا جائے وگرنہ کتنے ہی کسان بھوکے مر جائیں گے ،پاکستان کو شدید نقصان ہو گا ۔اس کے علاوہ فصلوں کے معیار پر بھی فرق پڑنے کا امکان ہے جس سے بین الاقوامی منڈیوں میں فصلوں کے دام بھی گرسکتے ہیں۔
چیئرمین ایگری فورم ابراہیم مغل کاکہنا ہے کہ پاکستان میں 86لاکھ 20ہزار خاندان زراعت کرتے ہیں جبکہ قابل کاشت رقبہ 5کروڑ 4لاکھ ایکڑ ہے حکومت نے جب مقامی کسانوں سے گندم 625روپے من لی اس وقت عالمی مارکیٹ میں اس کا ریٹ 1400روپے تھا حکومت نے 50لاکھ ٹن گندم خریدی جس کی وجہ سے کاشت کاروں کو 40ارب روپے کا نقصان ہوازرعی شعبہ ہرسال کھاد، بیج، ڈیزل، ٹریکٹر، ٹیوب ویل اور مختلف اقسام کے ٹیکسز ادا کرنے میں پانچ سو ارب خرچ کرتا ہے اگر حکومت نے زراعت پرمزید ٹیکس لگا دیا تو یہ دہرا ٹیکس ہوگا ایسی صورت میں کسانوں سے ٹیکس وصولی کیلئے زبردستی کی گئی تو کسان اپنی توانائیاں اپنا دفاع کرنے پر لگا دیں گے جس کی وجہ سے زراعت شدید متاثر ہوگی۔ پاکستان فارمرزایسوسی ایشن کے نمائندے کے مطابق پوری دنیا کسانوں کو 385 ارب ڈالر کی بھاری سبسڈی دے رہی ہے اوربھارت میں زرعی پیداوار پر کسانوں کیلئے یہ سبسڈی بڑھا کر 124.3 ارب ڈالر کی جارہی ہے لیکن پاکستان میں زرعی پیداوار پرمزید سبسڈی دینے کے بجائے الٹاٹیکس لگانے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ زرعی سامان پر ٹیکس لگنے سے غریب افراد پر دباو ¿ بڑھ جائے گا اور وہ تباہ ہو جائیں گے تاہم ایسا نہ کیا جائے۔
ماہرین کے مطابق زراعت پر ٹیکس لگانے سے کئی ممالک قحط سالی کا شکار ہوئے ہیں، حکومت نے زراعت پر توجہ نہ دی تو آئندہ تین سالوں میں 80ارب روپے کا بیج درآمد کرنا پڑے گا اور ٹیکس کے نفاذ کے بعد تو شاید مزید بیج درآمد کرنا پڑے۔ملک میں زرعی ٹیکس کی چھوٹ کی حد سا ڑھے بارہ ایکڑ سے بڑھا کر25ایکڑتک کردینی چائیے۔زرعی شعبہ پر زرعی ٹیکس عا ئد ہونے سے زر اعت ہی نہیں، پوری معیشت متا ثر ہوگی۔
صو با ئی وزیر زر اعت ملک احمد علی او لکھ نے کہا کہ پا کستان میں زرعی و معا شی تر قی کیلئے پا لیسیوں میں تسلسل کی ضرورت ہے۔پا کستانی کسا نوں کے پاس تعلیم اور صحت کی سہو لیات کا فقدان ہے۔بڑے زمینداروں کی حا لت بھی قا بل رشک نہیں ہے۔زرعی شعبہ سے کسا نوں کو قلیل آمدنی حاصل ہو رہی ہے۔کسانوں کے ایسے حالات میں ٹیکس کا لگنا زیادتی ہے۔
ڈیری مصنوعات (دودھ، دہی، مکھن، کریم وغیرہ) اور سٹیشنری پر ٹیکس لگا دینے کے بعد عام آدمی متعدد آسائشوں سے محروم ہو جائے گا۔ان مصنوعات کو خریدنے سے پہلے ایک دفعہ دماغ میں کہیں یہ ضرور خیال آئے گا کہ کیا دودح یا دہی لیا جائے اور اگر لیا جائے تو کتنا لیا جائے؟کیا ان چیزوں کا کوئی اور متبادل نہیں ہے؟ انسان کی روز مررہ چیزوں کے استعمال میںکمی آجائے گی اور لوگ ضرورت کے وقت بھی دودھ یا دہی کا استعمال کرنے سے پہلے اس کے کسے متبادل کے بارے میں سوچیں گے جو کہ ہو ہی نہیں سکتا ۔کسانوں سمیت عوام پر حکومت ترس کھائے ورنہ لوگ خود کشیان کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
پاکستان کی کروڑوں عوام مہنگائی کا خاتمہ چاہتی ہے۔ بجلی، روٹی، پانی اور تعلیم سب ہی روز بروز مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔آج کل لوگ مہنگائی کی وجہ سے مرغی کے بجائے سبزیوں کو کھانے پر زیادہ انحصار کرتے ہیں جب زراعت پرٹیکس لگے گا اور سبزیاں مہنگی ہو جائیں گی تو عوام سبزیوں کی جکہ کیا کھائے گی۔فاقہ شکنی مجبوری بن جائے گی لوگ بھوکے مرنے لگیں گے۔ ان تمام باتوں کو سمجھتے ہوئے حکومت زرعی ٹیکس کے نفاذ کوروکے تاکہ زراعت اور کسان دونوں تباہی سے بچ
جائیں اور ملک کو بھی نقصان نہ ہو۔

No comments:

Post a Comment