December 22, 2010

پاکستان میں دودھ کی پیداوار اور مہنگائی......(Article Volume#49)

پاکستان میں دودھ کی پیداوار پر خاصی توجہ دی جاتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ پاکستان دودھ کی پیداوار میں چوتھے نمبر پر شمار کیا جاتا ہے۔بہترین دودھ کی پیداوار دینے والے ممالک میں ہندوستان، چین اور امریکہ کے بعد پاکستان کا نام شمارکیا جاتا ہے۔پاکستان میںدودھ کی بہتر پیداوار گاﺅں اور قصبوں میں پالی گئی گائیں، بھینس،ا ونٹ اور بکریوں کی بدولت حاصل ہوتی ہے۔پاکستان میں دودھ کی بہتر پیداوار کے لئے متعدد پراجیکٹس کا انعقاد کیا جا چکا ہے اور اس سے کافی فائدہ بھی ہوا ہے۔
ملک میں مویشیوں کی تعداد تقریباً 5 کروڑ ہے جن سے سالانہ دودھ کی پیداوار 45 بلین لیٹر لی جاتی ہے۔ ان جانوروں میں گائیں، بھینسیں، بھیڑیں، بکریاں اور اونٹوں شامل ہےں۔دودھ کی اس مقدار سے دہی،کھویا، پاکستان متعدد ممالک کو دودھ اور اس سے تیار کردہ مصنوعات بیچ کر زرمبادلہ کماتا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر دودھ چھوٹے کسانوں سے حاصل کیا جاتا ہے اور ان کسانوں کے پاس زیادہ سے زیادہ 6 سے 8 جانور ہیں، ملک کا برآمد کردہ دودھ میں سے97 فیصد دودھ چھوٹے گھرانوں سے حاصل کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے یہ دودھ جراثیم سے پاک کرنے کے لئے مختلف مراحل سے نہیں گزارا جاتا ہے۔ کچھ چھوٹی موٹی کمپنیاں ہیں جو دودھ کو اکھٹا کر کے ان کو مختلف مراحل سے گزار کر ڈبوں میں پیک کرتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میںجانوروںکے ڈیری فارموں کی تعداد تقریباً 30 ہزار ہے۔پاکستان میں دودھ کی زیادہ پیداوار دینے والی گائیں اور بھینسوں میں ساہیوال کی گائیں اورنیلی راوی بھینسیں مشہور ہیں۔ ملائیشیا اور ایسے ہی دیگر ممالک ان گائیں اور بھینسوں کی خریداری کے لئے پاکستان سے معاہدہ کر چکے ہیں۔
دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں دودھ کی قیمتیں روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہیں اور اسی وجہ سے دودھ سے بنی بیشتر اشیاءبھی مہنگی ہو رہی ہیں۔پاکستان میں دودھ فروش عام دودھ بھی کم سے کم 40 روپے کلو فروخت کر رہی ہیں۔اچھا دودھ لینے کے لئے کم سے کم 50 سے 60 روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں جو کہ ایک عام آدمی کے لئے سخت پریشانی کا باعث ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دودھ کی قیمتیں بھارت کی نسبت 16 روپے زیادہ ہیں،اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں دودھ کی قیمتوں کو کنٹول کرنے کے لئے آل انڈیا ملک سپلائی کارپوریشن کو بنایا گیا ہے اور وہ دودھ کی قیمتوں کو بڑھنے نہیں دیتی جبکہ اس کے مقابلے میںپاکستان میںدودھ کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے کوئی خاص ادارہ نہیں بنایا گیا اور جو ادارہ موجود ہے ،اس ادارے کا کوئی خاص کام اور دخل نظر نہیں آتا۔گوالے اپنی مرضی کے نرخوں پر دودھ کی فروخت کیا کرتے ہیں۔ایک اور خاص بات یہ ہے کہ بھارت میں گوالے ٹیکس بھی دیتے ہیں اور پھر بھی ان کو دودھ کی فروخت میں اچھا خاصا فائدہ ہوتا ہے۔پاکستان میں دودھ کی فروخت کرنے والے گوالوں کے بارے میںیہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دودھ میںپانی یا پھر کیمیکل ملاتے ہیں، ان گوالوں کے باعث متعدد لوگ بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ان گوالوں کی نگرانی اور دودھ کی قیمتوں کو جگہ پر لانے کے لئے حکومت پاکستان کوڈیری ڈویلپمنٹ بورڈ اور ایسے دورے اداروں کو ہوش دلانا ہو گا اور اس کے لئے تھوڑی سختی لازمی ہے۔
کرپشن ہمارے ملک کے ترقی پزیر سے ترقی یافتہ نہ ہونے کی سب سے بری وجہ ہے۔ اگر یہ اعلی حکام کرپشن کو روک لین تو ملک کی ترقی کرنی کی رفتار مین ایک دم دگنی تیزی آسکتی ہے۔آج کل ٹیکس کی باتیں کی جا رہی ہیں جس کے لگنے کے بعد ملک کی مہنگائی اور زیادہ ہو جائے گی ، اگر ایسا کوئی ٹیکس لگا تو ایک چھوٹے کسان سے لے کر عام آدمی مہنگائی کے اضافی بوجھ کا شکار ہو جائے گا تاہم اس ٹیکس کے نفاذ کو روکنا چاہیے۔
ہر سال ہمارے ملک کے ایک گھر میں کم از کم 150 لیٹر دودھ استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ پاکستان دودھ کی پیداوار میںدیگر کئی ممالک کی نسبت بہتر پیداوار دے رہا ہے مگردودھ کا استعمال ہر سال زیادہ ہونے کی وجہ سے مستقبل میںاس کی بہتر پیداوار بھی ضروری ہوتی جا رہی ہے۔ اگر دودھ کی پیداوار پرتوجہ نہ دی گئی تو آنو والے کچھ سالوں میں دودھ کی کمی بھی واقع ہو سکتی ہے۔ ایک سروے کے مطابق دودھ استعمال کی جانے والی غذاو ¿ں میں سب سے زیادہ بہتر محفوظ اور لذیذ خوراک ہے ۔ سروے کے مطابق پاکستان میں ایک اوسط گھرانے میں روزانہ دودھ کی کھپت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ روزانہ استعمال ہونے والی غذا کاایک تہائی حصہ بالحاظ وزن دودھ اور اس سے تیار کردہ مصنوعات پر مشتمل ہوتا ہے۔دودھ کی پیداوار پر توجہ دلانے کی ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اگست2010 ءمیں آنے والے سیلاب نے جانوروں کا کافی نقصان کیا ہے اور متعدد کسانوں کے جانور سیلاب میں بہہ گئے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباَدو لاکھ سے زائد جانوروں کا نقصان ہوا ہے، لازمی سی بات ہے کہ جب جانوروں کا نقصان ہوا ہے تو دودھ کی پیداوار بھی کم ہوئی ہو گی ۔سیلاب میں جانوروں کے بہہ جانے کے باعث دودھ کی پیداوار کم ہو گئی اسی لئے دودھ کی پیداوار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
حکومت پاکستان دودھ کی پیداوار کو 2015 ءتک 50 بلین سالانہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ،اس منصوبے کو سفید انقلاب کا نام دیا گیا ہے۔اس منصوبے کی بدولت تقریباَ3ملین لوگوں کو روزگار میسر ہو گا جبکہ روزانہ350ملین روپے کا فائدہ ہو گا۔مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ اگست2010 ءمیں آنے والے سیلاب نے ان چھوٹے کسانوں کے جانوروں کو سخت نقصان پہنچایا ہے اوراس طرح دودھ کی پیداوار میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ حالیہ بدترین سیلاب کے باعث دودھ کی پیداوار میں یو میہ لاکھوں لٹر کمی واقع ہوئی ہے، سیلاب کی وجہ سے دیگر اشیاءکی قیمتیں بڑھنے کے ساتھ ساتھ دودھ کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں۔ ڈیری فارمز کے نمائندواں کے مطابق سیلاب سے خیبر پختونخوا‘ پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان اور دیگر علاقوں میں دودھ دینے والے لاکھوں جانوروں کی ہلاکت ہوئی اور مارکیٹ میں دودھ کی طلب پوری نہ ہونے کی وجہ سے دودھ کی قیمتیں بڑھی ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق سیلاب کے بعد سے اب تک دودھ کی قیمتوں میں 10 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے۔پنجاب میں دودھ پیدا کرنے والے سب سے بڑے ضلع لیہ میں سیلاب کے باعث 70 ہزار دودھ دینے والے جانور ہلاک ہوئے جس کی وجہ سے ضلع میں یومیہ 60 ہزار لٹر دودھ کم پیدا ہو رہی ہے۔تاہم دودھ کی پیداوار کو مزید جانوروں کی نشرونما کے ذریعے پورا کیا جا سکتا ہے، صرف حکومت کی تھوڑی سی توجہ درکار ہے۔
دودھ کی پیداوار کو بڑھانے کا ایک طریقہ بائیوٹیکنولوجی کا استعمال ہے۔ اس ٹیکنولوجی کے استعمال کے ذریعے متعدد ممالک نے دودھ کی پیداوار میں اضافہ کیا،پاکستان بھی بائیوٹیکنولوجی کے استعمال کے ذریعے دودھ کی پیداوار میں کافی اضافہ کر سکتا ہے۔ حکومت جس طرح روایتی طریقوں کے بجائے سائنس و ٹیکنولوجی کو بروئے کار لانے میں کاشتکاروں کی معاونت کر رہی ہے اسی طرح دودھ کی پیداوار کوبڑھانے کے لئے بھی تکنیکی اور تعلیمی رہنمائی فراہم کرے تاکہ دودھ کی پیداوار کو بڑھایاجا سکے۔
پاکستان کی معیشت کو ہمیشہ کرپٹ عناصر نے نقصان پہنچایا ہے اور پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی وجہ بھی یہی نظر آتی ہے،ہماری حکومت اگر کرپشن کے خاتمہ کے لئے سختی اختیار کرے تو ملک چند ہی سالوں میں اشیاءدوسرے ملکوں سے لینے کے بجائے انھیں دیناشروع کردے گا۔

No comments:

Post a Comment