December 27, 2010

نامیاتی کاشتکاری.....Article (Issue # 50)




یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا کی آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ اس رفتار سے انسانی خوراک کی پیداوار میں اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔ ہماری زمینیں ایک خاص حد تک پیداوار دینے کے بعد جمود کا شکار ہو گئی ہیں۔ جدید زراعت کے نام پر کیمیاوی کھادوں اور زہروں کے استعمال کے باوجود ہم نہ پیداواری جمود کو توڑ سکے اور نہ بین الاقوامی پیداواری ہدف کو چھو سکے ہیں۔ زرعی ماہرین تحقیقی کاوشوں سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پاکستان میں قدرتی وسائل کو بہت بے دردی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جس کے باعث ماحولیاتی مسائل بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ فصلوں پر کیمیاوی کھادوں اور زہروں کا بے تحاشہ استعمال عروج پر ہے۔
ہم اپنی فصلوں کی پیداوار بڑھانے کے لئے بغیر سوچے سمجھے بین الاقوامی ٹیکنولوجیز پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں۔ جس سے نہ صرف ہماری زمینیں متاثر ہو رہی ہیں بلکہ ان سے طر ح طرح کے ماحولیاتی مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ جو زرعی ماہرین سائینسدانوں کے لئے بہت بڑا چیلنج ہیں۔ یورپی ٹیکنولوجیز کے استعمال کے بعد جو خواری ہمیں ہوئی ہے۔ اب ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ زرعی ترقی اور انسانی بقاءکے لئے اصل اور دیر پا زرعی پیداواری نظام نامیاتی کاشتکاری ہی ہے۔ اس نظام میں انسانی فلاح کا عنصر ہے کیونکہ یہ قدرتی نظام کے تحت ہے۔اور اس نظام سے ہر کاشتکار پوری طرح آگاہ بھی ہے۔ ہم نے اپنے کاشتکاروں کو صحیح سمت فراہم نہیں کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب سے کیمیاوی کھادوں اور زہروں کا استعمال شروع ہوا ہے۔
اس سے نہ صرف ہماری زمینیں برباد ہوئی ہیں بلکہ اس سے پانی اور ماحول بھی آلودہ ہوا ہے۔اور جاندار بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ ایف۔ اے۔ او (FAO) کی رپورٹ کے مطابق نامیاتی کاشتکاری تاریخی پیداواری نظام ہے۔ جو قدرتی ماحول کو اصل صورت میں قائم رکھنے اور بہتر بنانے کے لئے نہایت موزوں ہے۔ اس نظام کے تحت حاصل ہونے والی انسانی خوراک ہر لحاظ سے صحت کے لئے بہت اچھی ہے۔ اس نظام کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اپنا رہے ہیں۔ اور اس پیداواری نظام سے پیدا ہونے والی خوراک کی طلب روز بروز بڑھ رہی ہے یہ بات نہایت خوش آئیند ہے کہ پاکستان میں بھی ہمارے شعور رکھنے والے کاشتکار آرگینک فارمنگ کو اپنا رہے ہیں اور اسے اپنا ذریعہ معاش بنا رہے ہیں۔
اس طرح انھیں اپنی محنت کا صحیح صلہ بھی مل رہا ہے اور وہ لوگوں کو آلودگی سے پاک خوراک مہیا کر رہے ہیں۔ یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور ان کے حواری نامیاتی کاشتکاری کو کم زرعی پیداوار کے زمرے میں لا کر دنیا کی آبادی کی ضروریات کو پورا نہ کر سکنے کا بے بنیاد پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ ہمارے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کو چاہیے کہ وہ پاکستان میں نامیاتی کاشتکاری کے اطلاق پر زور دیں کیوںکہ اس میں ہماری بقاءہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے مفادت کے پیش نظر کام کر رہیں ہیں۔ انھیں پاکستان کے عوام کی خو شحالی ، صحتوں اور ماحول کی خرابی سے کوئی سروکار نہیں۔ ان کی اولادیں امریکہ اور دیگر یورپی ممالک میں ہیں۔
اس حقیقت کو کاشتکار اور دیگر سٹیک ہولڈرز جان چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کے دنیا کے بیشتر ممالک کے کاشتکاروں نے آرگینک فارمنگ شروع کر دی ہے۔ ھڈسن انسٹی ٹیوٹ کے مشہور سائنسدان اکانومسٹ ڈینیز ایوری کا کہنا ہے کہ نامیاتی کاشتکاری ہی ایک ایسا طریقہ کاشت ہے جو پوری دنیا کو خوراک مہیا کرنے کے لئے دیر پا ہے۔ ایف۔اے۔او (FAO )کی آرگینک سے متعلق تحقیق کے مطابق ٹماٹر، سورج مکھی، مکئی اور مٹر کی کاشت آرگینک(نامیاتی) اور ان آرگینک(غیر نامیاتی) طریقے سے موازنے کے لئے کی گئی۔
جب نتائج سامنے آئے تو معلوم ہوا کہ نامیاتی کاشتکاری زیادہ منافع بخش ہے۔ اس طریقہ کاشت سے اخراجات بھی کم ہوئے۔ اور قدرتی ماحول کے فروغ اور قدرتی پیداواری نظام کے لئے نہایت موزوں پائی گئی۔ جب کہ کیمیاوی کھادوں اور زہروں کے استعمال کے ذریعے کاشت سے ہمارے ماحول اور زمین کو نقصان پہنچا، پیداواری اخراجات کہیں زیادہ ہوئے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نامیاتی کاشتکاری ہی اصل کاشتکاری کا طریقہ کار ہے جو کسان صدیوں سے اپنائے ہوئے ہیں اور وہی اس کا بانی بھی ہیں۔۔ یاد رہے اس وقت دنیا کے تقریباََ 138 ممالک میں آرگینک فارمنگ ہو رہی ہے۔
جو تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اور عالمی منڈیوں میں آرگینک زرعی پیداوار کی طلب بہت بڑھ گئی ہے اور ترقی یافتہ ممالک کے عوام آرگینک زراعت کو ترجیحی بنیادوں پر کر رہے ہیں۔پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کے چیرمین ڈاکٹر ظفر الطاف جو وفاقی سطح پر وزارت خوراک ، زارعت و لائیوسٹاک کے سیکریٹری اور کونسل کے دو دفعہ چیرمین کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ اور زرعی شعبے میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں نے قومی زرعی تحقیقاتی مرکز میں پچھلے سال آرگینک طریقہ کاشت کے ذریعے گندم اور سبزیوں کی کاشت کی ہے۔ یہ کاشت آرگینک طریقے سے کی گئی ہے۔ اور ان کی مارکیٹنگ کی گئی اور لوگوں نے بڑھے شوق سے ان سبزیوں کو خریدہ اور استعمال کیا اور ذائقہ اور معیار میں بہت بہتر پایا۔۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کا کہنا ہے کہ اس طریقہ کاشت سے ہمارے ماحول اور زمینوں کی حالت بہت بہتر ہو جائے گی۔ ہم اس ٹیکنولوجی کے ذریعے پورے ملک کیلئے خوراک حاصل کر سکیں گے۔ انھوں نے کہا ہے کہ انشاءاللہ ہم جلد ہی پورے ملک میں اس ٹیکنولوجی کو لے جانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ پاکستان میںپچھلے سال ساڑھے چار لاکھ ایکڑ پر آرگینک طریقہ کار سے زراعت کی گئی ہے جس سے حوصلہ افزاءنتائج بر آمد ہوئے ہیں۔ اور اس میں ہماری بقاءہے۔۔ زراعت کی ترقی کے لئے ملک کو اہم قدم اٹھانا ہو گا کیونکہ یہ ملک کی خوشحالی کے لئے ضروری ہے۔
زراعت میں صدر پاکستان کی دلچپی کے باعث انھوں نے پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کے چیرمین ڈاکٹر ظفر الطاف کو بھی اپنے قافلے میں شامل کیا تا کہ چین سے زرعی شعبے میں ایسے معاہدے کئے جائیں جن سے پاکستان کی زرعی ترقی کو تیز تر کیا جا سکے۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کا کہنا ہے کہ بیج ایک بنیادی عنصرہے اگر بیج اچھا ہو گا تو پیداوار بھی یقینا اچھی ہوگی۔ اسی لئے پاکستان نے بیجوں کی پیداوار سے متعلق چین سے معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ معاہدے کی رو سے پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل اور چین کے صوبے ہوبے میں بیجوں کی کمپنی پاکستان میں خوردنی تیل کی پیداوار بڑھانے کے لئے ہائی بریڈ بیجوں کی تیاری میں اشتراک کر رہی ہے۔
جس پر عمل درآمد جاری ہے۔ اس سلسلے میں چین کا ایک وفد حال ہی میں پاکستان کے دورے پر آیا تھا جسے کونسل کے چیرمین اور ٹیکنیکل ممبران نے پاکستان میں زراعت پر اب تک ہونے والی تحقیق پر روشنی ڈالی اورکینولہ کے ہائی بریڈ بیجوں کی پیداوار بڑھانے کے علاوہ مستقبل کے لئے تعاون کے فروغ کے لئے باہمی اشتراک پر غور کیا گیا۔ تاکہ مستقبل میں ہم موثر منصوبہ بندی کے ذریعے مسائل پر قابو پا سکیں۔ اور زرعی تحقیقی نظام کو صیح سمت چلا سکیں۔۔ ہمیں چاہئے کہ ہم مسائل کا حل تلاش کریں جو قدرتی ،ماحولیاتی اور حیاتیاتی بقائ کے اصولوں پر مبنی ہو۔جس پر اخراجات بھی کم ہوں۔ اور ہمارے کاشتکار اسے آسانی سے اپنا سکیں۔ ڈاکٹر ظفر الطاف نے بتایہ کہ ہمارے پاس ایک ایسا ایک حل موجود ہے جس کے بانی صدیوں سے ہمارے کسان ہیں۔ اور وہ ہےنامیاتی کاشتکاری۔ جو قدرتی ماحول کو بہتر بنانے اور انسانی خوراک کے لئے انتہائی صحت مند اور موزوں ہے“۔ہمیںایسے پیداواری نظاموں پر عمل کرنا ہو گا جن کی طلب دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے سب کاشتکار کر رہے ہیں۔
یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ کاشتکار دنیا بھر کے ا نسانوں کی طلب کے پیش نظر نامیاتی کاشتکاری کو ا پنا رہے ہیں۔ جس سے نہ صرف ان کو انکی محنت کا صحیح صلہ مل جاتا ہے۔بلکہ وہ لوگوں کو آلودگی سے پاک خوراک مہیا کر رہے ہیں۔جو میں سمجھتا ہوں عین عبادت ہے۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کے تجربے کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو ہم نے کاشتکاروں کے اوپر بے کار بوجھ ڈال رکھا ہے۔
 

No comments:

Post a Comment