December 27, 2010

انٹرنیٹ، گلوبل ولیج......(Article Issue # 50)




کیبل خراب ہونے کی صورت میں کیبل کی مرمت کا کام کھلے سمندر میں کیا جاتا ہے اور جب کام حتمی طور پر مکمل ہوجاتا ہے اور کیبل سٹیشن آزامائشی تجربات کر لیتا ہے تو ٹریفک کے نظام کو کھول دیا جاتا ہے۔اس کنسورشیم کے ممبران کے درمیان انتہائی مستحکم تعاون پایا جاتا ہے اور کام کی بحالی کے امور میں اکثریت کے مفادات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے تاکہ کسٹمرز کا بزنس تسلسل سے جاری رہ سکے۔سی اینڈ ایم اے دستخطوں کے وقت کیپسٹی کو اونر شپ کی بنیاد پر خریدا جا سکتا تھا مگر اب کیپسٹی کو صرف آئی آر یو کی بنیاد پر خریدا جا سکتا ہے۔دو لینڈنگ مقامات کے درمیان قیمت ان دو مقامات کے درمیان جغرافیائی فاصلے کے برابر ہوتی ہے جو کم از کم 550کلو میٹر اور زیادہ سے زیادہ 10000کلو میٹر ہے۔
پاکستان نے SEA- ME- WE- 3 کیلئے 1999ءمیں 35ملین ڈالر کی ابتدائی سرمایہ کاری کی تھی جبکہ اس کی مینٹی نینس کے لئے مزید 2.5ملین ڈالر رکھے تھے۔لہذا 27جون 2005ءکو جب اس نیٹ ورک میں خرابی پیدا ہوئی تو پی ٹی سی ایل کو فوری طور پر کنسورشیم کو اس کی مرمت کے لئے کوئی ادائیگی نہیں کرنا پڑی۔اس خرابی سے پاکستان اور دوسرے ممالک کے درمیان ڈیٹا Feedsختم ہو گئی تھیں۔انٹر نیٹ اور دیگر مواصلاتی رابطے بھی ختم ہو گئے تھے۔ یہ پاکستان کا واحد کیبل لنک ہے اور اس خرابی سے پاکستان کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی،سٹاک ٹریڈنگ اور دوسری تجارتی سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئیں،انٹر نیٹ اور بینک Transactionکو بھی شدید دھچکا لگا۔متعدد دفاتر میں کام بند ہو گئے۔اس بارے میں متعدد لوگوں کو خیال تھا کہ یہ کوئی مستقل خرابی نہیں بلکہ کوئی تکنیکی خرابی ہے جو دور ہو جائے گی مگر یہ خرابی 8جولائی 2005کو دور ہوئی اور ان دو ہفتوں میں پاکستان کو تقریباً 60ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔
بھارت نے فائبر آپٹک کیبل کے دو زیر سمندر انتظامات کر رکھے ہیں۔SEA- ME- WE-2اورSEA-ME-WE-3۔یہ دونوں ممبئی اور مدراس کو ملاتے ہوئے پوری دنیا کے گرد پھیلے ہوئے ہیں جبکہ بھارت نے براہ راست سیٹلائٹ سے کیبل فکس کا انتطام بھی کیا ہوا ہے جو کسی بھی خرابی یا قدرتی آفت کی صورت میں تیسرے متبادل کے طور پر فوری حرکت میں آسکتا ہے اور براہ راست سیٹلائٹ سے جزوی طور بھی کام لیا جا سکتا ہے۔ جبکہ پاکستان کا انحصار ابھی تک صرفSEA-ME-WE-2کیبل سسٹم پر ہی ہے۔بھارت کے ڈومیسٹک سیٹلائٹ سسٹم میں254زمینی سٹیشن ہیں۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جدید سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے عالم اسلام کے تمام ممالک اور دنیا بھر کی 90 فی صد انٹر نیٹ سروس اور مواصلاتی مواد کو اپنے کنٹرول میں لیا ہوا ہے۔ امریکہ ، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی خفیہ ایجنسیوں نے ایک خصوصی مشترکہ مانیٹرنگ نظام تشکیل دیا ہوا ہے کہ جس سے امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک نے جاسوس سیاروں کے مضبوط نیٹ ورک کے ذریعے دنیا کے 90 فی صد مواصلاتی مدار پر دسترس حاصل کی ہوئی ہے۔اس سسٹم سے امریکہ اور اس کے اتحادی دنیا کے نوے فیصد مواصلاتی نظام کو نہ صرف واچ کر سکتے ہیں بلکہ یہ مواد فلٹر بھی کیا جا سکتا ہے جدید ریڈیائی اور دیگر حساس آلات سے لیس یہ سیٹلائٹ نظام انٹر نیٹ ٹرانسمیشن کے علاوہ زیر سمندر کیبل سے گزرنے والی ٹیلی فون کالوں کو بھی با آسانی مانیٹر کر سکتا ہے اس نظام سے امریکہ اور اس کے اتحادی روزانہ تین ارب ٹیلی فون کالز ، مواصلاتی رابطوں ، ای میل پیغامات،انٹر ڈاﺅن لوڈ اور مصنوعی سیاروں کی نشریات کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال اور ان کی روک تھام کر سکتے ہیں اس نظام کو گلوبل انٹرپشن اینڈری سسٹم کا نام دیا گیا ہے اور اسے امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک کی خفیہ ایجنسیاں مشترکہ طور پر ایکن ون کے خفیہ کوڈ سے چلاتی ہیں۔
دنیا کے کئی ممالک کی مخالفت کے باوجود امریکہ نے انٹر نیٹ پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کی جنگ لی ہے۔انٹر نیٹ سے متعلق اقوام متحدہ کی ایک بڑی کانفرنس سے پہلے مختلف ممالک کے نمائندوں کے درمیان جاری مذکرات میں آخری لمحات میں اس بات پر اتفاق ہو گیا ہے کہ ایک بین الاقوامی فورم بنایا جائے جو انٹر نیٹ سے متعلق معاملات پر بحث کرے گا اگرچہ اس فورم کے پاس قوانین کے نفاذ کی اتھارٹی نہیں ہو گی۔ اس بات کے طے ہو جانے کے بعد اب اقوام متحدہ کی کانفرنس میں غریب ممالک تک انٹر نیٹ کی رسائی کے معاملے پر توجہ مرکوز کی جا سکے گی۔ تیونس میں ہونے والی اس تین روزہ کانفرنس میں کئی عالمی رہنماﺅں سمیت دس ہزار سے زائد مندوبین شرکت کی۔انٹر نیٹ پر امریکہ کے کنٹرول کے معاملے پر اختلافات کی وجہ سے خدشہ تھا کہ یہی معاملہ اس کانفرنس کا مرکز بنا رہے گا اور باقی ایشوز نظر انداز ہو جائیں گے۔چین اور ایران کا اصرار تھا کہ اقوام متحدہ کے تحت ایک ادارہ قائم کیا جانا چاہیے جو انٹر نیٹ کے معاملے کی نگرانی کرے۔
امریکہ نے اس تجویز کی مخالفت کی اور اس کا اصرار تھا کہ ایسا کرنے سے ٹیکنولوجی کے میدان میں ترقی متاثر ہو گی اور غیر جمہوری حکومتیں سینسر شپ میں اضافہ کر سکتی ہیں۔تیونس میں ہونے والے اس اتفاق رائے کے بعد اب انٹر نیٹ کا روزمرہ کا انتظام کیلی فورنیا میں قائم انٹر نیٹ کارپوریشن فار اسائینڈ نیمز اینڈ نمبرز کے ہاتھوں میں ہے جو امریکی حکومت کو جوابدہ ہوتی ہے۔اس معاملے کے طے ہوجانے کے بعد اب کانفرنس کا فوکس غریب ممالک تک انٹر نیٹ کی رسائی پہنچانا ہو گا۔
کچھ سال پہلے اسی کانفرنس کے جینوا کے اجلاس میں ممالک ایک ڈیجیٹل سولیڈیریٹی فنڈ قائم کرنے میں ناکام رئے تھے جس کا مقصد 2015ءتک دنیا بھر میں انٹرنیٹ کا عام کرنا تھا۔لیکن ابھی تک دنیا کی صرف چودہ فیصد آبادی کو انٹر نیٹ کی سہولت میسر ہے جبکہ امریکہ میں باسٹھ فیصد آبادی کو یہ سہولت حاصل ہے۔
 

No comments:

Post a Comment