December 27, 2010

انٹرنیٹ کا آزادانہ استعمال؟......Article (Issue # 50)



انٹرنیٹ ایک خود مختار’ خفیہ اور مخصوص میڈیا بن چکا ہے اور سچ کہیں تو یہ سرکاری میڈیا کا متبادل بھی بن چکا ہے۔ مشرق وسطی میں انٹرنیٹ کی وجہ سے گورنمنٹ اور عوام کے درمیان بدلتے ہوئے رشتے پر ایک نظر۔۔۔
1990 کے آغاز میں ہی انٹرنیٹ مشرق وسطی میں ایک مسئلہ بن گیا۔ اس کی اجازت دینے میں شام اور سعودی عرب آخری ممالک تھے اور انہوں نے ایسا تب کیا جب انہیں یقین ہو گیا کہ وہ ٹیکنولوجی کے اعتبار سے اس قابل نہیں کہ انٹرنیٹ تک مفت رسائی کو روک سکیں۔
ان سالوں میں انٹرنیٹ اس خطے کے ممالک میں پھیلتا چلا گیا اور ان میں سے کچھ ہی اس کی اہمیت کو سمجھ پائے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ عوام نہ صرف اپنے ملک کی بلکہ دوسرے ممالک کی خبریں جاننے کے لیے بھی بے تاب تھے۔ ایک اور حقیقت کہ اس خطے کے کئی حصے ابھی بھی انٹرنیٹ سے محروم ہیں۔
اس لیے دوسری جانب وہ ممالک ہیں جو شاید انسانی وسائل کی وجہ سے ابھی تک انٹرنیٹ سے محروم ہیں جیسا کہ شام جو مصر سے زیادہ جمہوریت پسند ہے لیکن وہاں انٹرنیٹ کا پھیلاوءمصر سے صرف 0.5 فیصد زیادہ ہے بہرحال پھیلاوءکی شرح 4 گنا زیادہ ہے۔
انٹرنیٹ کی ایک خصوصیت جو اسے اخبارات’ ریڈیو اور ٹی وی سے مختلف کرتی ہے وہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والا نہ صرف معلومات حاصل کرسکتا ہے بلکہ اسے آگے پہنچا بھی سکتا ہے۔ پرانے وقتوں میں خبریں سرکاری چینلز کے ذریعے بہت نپے تلے انداز سے ملتی تھیں جو مرضی کے مطابق چھان کر عوام کو پہنچائی جاتی تھیں۔لیکن اب انٹرنیٹ کے ذریعے صارف خود یہ طے کرتا ہے کہ اس نے دنیا کے کس کونے اور کس منبع سے خبر حاصل کرنی ہے اور اس طرح صارف اور خبر کے منبع کے درمیان کوئی دوسرا واسطہ نہیں ہوتا جو اس پر اثر انداز ہو سکے۔
لیکن اب انٹرنیٹ اس سے بھی زیادہ پر اثر ہو چکا ہے کیوں کے پرانے میڈیا کے بر عکس اس پر معلومات کا تبادلہ دو طرفہ ہوتا ہے یعنی کہ صارف نہ صرف معلومات وصول کر سکتا ہے بلکہ مزید معلومات کو پیدا اور ان کا با آسانی فروغ بھی کر سکتا ہے تا کہ وہ پوری دنیا میں پہنچ سکیں۔ جب ہم شخصی آزادی اور آزادی اظہار رائے کی بات کرتے ہیں تو یہ حقیقت بالواسطہ طور پر حکومتوں کے لیے اور بالخصوص کم اثر والے سیاسی گروپس کے لیے حقیقتا ایک چیلنج ہے۔
اس قسم کے چیلنج اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تنازعہ کی ایک مثال “یونٹ ٹو کمبیٹ سائبر اینڈ انٹرنیٹ کرائمز” کا قیام ہے جسے مصری حکومت نے ایک اتھارٹی کے طور پر ستمبر 2002 میں اس لیے بنایا تا کہ انٹرنیٹ جرائم کی سراغ رسانی اور اس میں فوری مداخلت کی جا سکے۔ اس کا بنیادی مقصد ان صارفین تک پہنچنا تھا جو وقتا فوقتا جنسی اشتہا والی سائٹس بناتے تھے۔
اس ادارے کے ذریعے ان تک رسائی بے حد آسان تھی کیونکہ تمام ملکی سرورزحکومتی وزارت ذرائع ابلاغ کے تحت چل رہے تھے۔ اس ادارے کی مشہوری تب ہوئی جب مصری اخبار الاحرام نے 5 مارچ 2004 کو اس ادارے کی جانب سے گرفتار ہونے والے ایک شخص کی کہانی چھاپی جس نے ایک ویب سائٹ بنا کر ایک سرکاری افسر اور اس کی فیملی کو نشانہ بنایا۔
مشرق وسطی میں بہت سے انتہا پسند گروپس سیاسی’ سماجی’ مذہبی اور ثقافتی رجحانات میں (جہاں عموما خاموشی اختیار کی جاتی ہے) اپنی آواز اٹھانے’ افکار سنانے اور انتشار پھیلانے کیلئے انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر انٹرنیٹ کے ذریعے خواتین اپنی زندگی کے بارے میں بات کرتی ہیں (جو بعض اوقات پردے کے پیچھے ہی رہتی ہیں)۔ انٹرنیٹ انہیں موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ معاشرے میں اپنی حیثیت اور جنسی برابری کی بات کر سکیں۔ یہ وسیع تر سرگرمی ان تمام رجحانات کا ثبوت ہے جو مشرق وسطی میں درجنوں آرگنائزیشنز کے وجود کی شکل میں نظر آتے ہیں جو انٹرنیٹ پر متحرک ہیں اور خواتین کی برابری کیلئے کام کرتے ہیں۔ پورے مشرق وسطی کی عرب خواتین کا ان کی عرب معاشرے میں حیثیت اور حالت زار کے حوالے سے جو تاثر ہے اس کو صاف صاف بیان اور اجاگر کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ کچہ انٹرنیٹ سائٹس سعودی عرب میں طلاقوں سے متعلق ہیں یا مصری خواتین کی جانب سے بنایا جانے والا ریڈیو اسٹیشن جو انٹرنیٹ پر پوری طرح سرگرم ہے۔
انٹرنیٹ کا استعمال کچھ اور گروپس بھی کر رہے ہیں؛ اصلاحی اور سیکولر گروپس موجودہ تنظیموں کے خلاف برسر پیکار ہیں جب کہ دوسری طرف بنیاد پرست عناصر؛ مسلمان جو اگرچہ قانونی طور پر کوئی راستہ نہیں پاتے لیکن آن لائن ہو کر اسے ممکن بنا لیتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں انٹرنیٹ کے ذریعے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات کی تیز’ وسیع اور مفت معلومات فراہم کرتی ہیں۔ وہ قیدیوں کی رہائی کی مہمات چلاتی ہیں۔ بلاگرز اور حکومت مخالف افراد انٹرنیٹ کا استعمال نہ صرف اپنے نظریات کی تشہیر کیلئے بلکہ وسیع تر انشورنس پالیسی (جو ان کے غائب ہونے یا گرفتار ہونے پر کام آ سکے ) کے طور پر بھی کرتے ہیں۔
11 اپریل 2009 کو مصری پولیس نے انسانی حقوق کے علمبردار بلاگر ویل عباس کو گرفتار کر لیا۔ اپنے موبائل فون کے ذریعے ٹویٹر کو استعمال کرتے ہوئے اس نے اپنے 2500 فالوورز تک اپنی قید اور پولیس کے رویے کی معلومات پہنچا دیں۔ اس کے فالوورز نے اس پر توجہ دی اور اسے آگے پہنچایا۔ اگلے ہی دن اسے رہا کر دیا گیا۔
ایسا ہی ایک اور واقعہ ایک امریکی طالب علم جیمز بک کا ہے جس کا تعلق بارکلے’ کیلیفورنیا سے تھا اور تب وہ پکڑا گیا جب وہ ایک مظاہرے کو کور کر رہا تھا۔ اس نے اپنے موبائل فون سے صرف “arrested” ٹویٹ کر دیا۔ اس کے فالوورز نے اسے سچ جانا اور یہ بات بارکلے میں اس کے سکول تک جا پہنچی اور اگلے دن وہ بھی رہا کروا لیا گیا۔
 

No comments:

Post a Comment