December 22, 2010

انٹرنیٹ، گلوبل ولیج......(Article Volume#49)

مواصلاتی رابطے کے تازہ ترین ذریعے انٹر نیٹ نے تمام دنیا کو گلوبل ویلیچ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کا ہر ادارہ سرکاری ہو یا غیر سرکاری اور ہر فرد اس کا مرہون منت بن کر رہ گیا۔ پاکستان کے 1812 شہر اب تک انٹر نیٹ سے منسلک ہو چکے ہیں جن میںپنجاب کے1091 شہر اور قصبے، سندھ کے202 ، صوبہ سرحدکے 404 اور بلوچستان کے 110 شہر اور قصبے شامل ہیں جبکہ تیس لاکھ کے قریب افرادانٹرنیٹ کا استعمال کر رہے ہیں جن میںاکثریت بچے اورکم آمدنی والے افراد شامل ہیں پاکستان میںانٹر نیٹ کے فروغ اور اس کو کنٹرول کرنے کے لیے2000 ءمیں پاک نیٹ لمٹیڈ کے نام سے ادارہ قائم ہوا۔پاکستان میںتین طرح کے انٹر نیٹ کنکشن دستیاب ہیں ایک تو بذریعہ ٹیلی فون لائن کسی بھی آئی ایس پی (انٹرنیٹ سروسزپرووائیڈر) سے رابطہ کر کے کنکشن لیا جاتا ہے جبکہ دوسرا طریقہ بعذریعہ کیبل سسٹم بھی متعارف ہوا ہے اور بذریعہ وائرلیس (برانڈبینڈوائرلیس سسٹم) انٹر نیٹ کنکشن بھی لیا جا سکتا ہے اس وقت دنیا بھر میں روزانہ وصول ہونے والی ڈی این ایس کیوریرز کی تعداد4936057 ہیں جبکہ پاکستان میں اوسطاََ روزانہ وصول ہونے والی ڈی این ایس کیوریرز کی تعداد 164535 ہیں۔انٹر نیٹ میں کسی بھی ویٹ سائٹ کے ایڈریس میں آخری الفاظ یعنی ٹاپ لیول ڈومین کی خاص اہمیت ہوتی ہے ٹاپ لیول ڈومین الفاظ انٹرنیشنل کارپوریشن فار نمبر اینڈ نیم الاٹ کرتی ہے جن میں com, net , org, edu, gov, mil, کے علاوہ اب اور بھی بہت سے الفاظ شامل ہیں ان میں سے, تعلیم, حکومت اور ملٹری صرف حکومتوں اور اداروں کے لیے مخصوص ہیں جبکہ دیگر ٹاپ لیول ڈومین تک ہر فرد کی رسائی ہے ملک بھر میں بعض اداروں نے انٹر نیٹ سروسز فراہم کرنے کی آڑ میں فراڈ شروع کر دیا اور کروڑوں روپے لوٹ کر غائب ہو گئے جبکہ بعض کمپنیوںنے سکریچ کارڈ بیچنے کی آڑ میں زائد المیعاد سکریچ کارڈمارکیٹ میں بھیج کر لوگوں کو لوٹنا شروع کر رکھا ہے اور اس بارے میں واضع قوانین نہ ہونے کی وجہ سے پو لیس بھی ان کے خلاف کاروائی نہیں کر پاتی۔ دنیا بھر میں جدید ٹیکنالوجی کی دوڑ اور ترقی کا جب سلسلہ شروع ہوا تو ترقی یافتہ ممالک نے اپنے فاصلوں کو کم کرنے اور فوجی مقاصد کے استعمال کے لئے انٹر نیٹ کے نظام کو متعارف کروایا اور اس سلسلے میں سب سے پہلے امریکی بحری فوج نے انٹر نیٹ کے نظام کو اپنایا تاکہ ان کے فوجی بحری جہازوں اور آبدوزوں میں موجود فوجیوں کے درمیان آپس میں رابطہ قائم رہ سکے کیونکہ پہلے سے رائج شدہ مواصلاتی سسٹم پانی میں ناکارہ ہو چکا تھا جبکہ انٹر نیٹ سسٹم ایک تو پانی میں بھی بخوبی کام کرتا تھا اوراپنے روابط کوخفیہ رکھنے میں بھی مدد گار تھا کیونکہ دیگر نظام کی اس تک پہنچ نہ تھی جب انٹر نیٹ نظام کی افادیت کا علم دوسرے ممالک کو ہوا تو سرمایہ کمانے کے لئے اس کو تجارتی بنیادوں پر بھی متعارف کروا دیا گیا جس سے یہ نظام تیزی سے دنیا کے تمام ممالک میں پھیل گیا جب انٹر نیٹ سسٹم چند سال پہلے پاکستان میں پہنچا تو یہاں کے سر مایہ کاروں نے نہ صرف ہارڈ وئیر اور سافٹ وئیر میں کروڑوں روپے کمائے بلکہ انٹر نیٹ سروسز فراہم کرنے والے ادارے بنا کر دولت کمانی شروع کر دی اسی دوران چند فراڈکمپنیاں بھی قائم ہو گیں جنہوں نے لوگوں کے ساتھ فراڈ کر کے ان کی رقوم ہڑپ کرنے کے لئے مہنگے اور غیر معیاری پیکج متعارف کرانے کے ساتھ اےسے سکریچ کارڈ بھی مارکیٹ میں لے آئیں جو کہ زائدالمدت ہونے کے علاوہ ناقص پرنٹنگ والے تھے جنہیںسکریچ کرنے سے ان کے اصل نمبر بھی مٹ جاتے جبکہ بعض ایسے بھی کارڈ ملنے شروع ہو گئے کہ جن سے انٹرنیٹ کا رابطہ قائم نہیں ہوتا تھا اور ان کارڈوں پر درج ہیلپ لائن نمبروں پر بھی رابطہ نہیں ہوتا تھااور بعض کمپنیوں کے سکریچنگ کارڈ کا وقت اگر چار گھنٹے ہوتا تو دو گھنٹے بعد ہی ان کا رابطہ منقطع ہو جاتا تقریباََ دو سال قبل چند افراد نے پاک فری ڈاٹ نیٹ کے نام سے انٹر نیٹ سروسز مہیا کرنے والی ایک کمپنی بنائی اور انٹر نیٹ کنکشن کا ایک پیکج بشکل(سی ڈی ) عوام میں متعارف کروایا جس کے مطابق کمپنی نے 2500 روپے کے عوض ہمیشہ کے لئے انٹر نیٹ کنکشن (ان لمیٹڈ ٹائم) دینے کااعلان کیا جس پر ہزاروں شہریوں نے اس پیکج کو خریدا مگر ڈیڑھ سال بعد اس کمپنی نے اپنے ادارے کو اپ گریڈ کرنے کے بہانے تمام کنکشن معطل کر دئیے اور بعد ازاں کروڑوں روپے اکھٹے کر کے غائب ہو گئے اس طرح بعض اداروں نے کروڑوں روپے کے ایسے سکریچ کارڈ مارکیٹ میں سپلائی کیے جو زائدالمعیاد ہو چکے تھے اس وقت پاکستان میںتیس لاکھ سے زائدافرادانٹر نیٹ کا استعمال کر رہے ہیں جن میں طالبعلموں کی تعداد سب سے زیادہ ہے یہ لوگ اپنی جیب خرچ کو انٹر نیٹ پر لگا دیتے ہیں اگرچہ اس سے تعلیم و تحقیق میں بھی بہت مدد لی جا سکتی ہے مگر انٹر نیٹ نظام کی وسعت کی وجہ سے معلوماتی مواد کے ساتھ فحش مواد نے نئی نسل کو بے راہ روی میں مبتلا کر دیا ہے انٹر نیٹ نظام ایک گلوبل نظام ہے جس میں سینکڑوں ملین کمپیوٹر آپس میں ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور کسی بھی وقت یہ تمام ایک دوسرے سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔
آج سے تقریباََ پانچ ہزار برس قبل ہی کمپیوٹر کی بنیاد پڑ چکی تھی جب ایشیا میں abacus نامی آلہ (کیلکولیٹر کی ابتدائی شکل) وجود میں آیا جس میں تجارت پیشہ افراد اپنا حساب کتاب رکھتے تھے جبکہ 1642 ءمیں فرانسیی ٹیکس کلکٹر کے بیٹے پاسکل نامی 18 سالہ نو جوان نے ایک تین کونہ ڈبے کی شکل جیسا کیلکو لیٹر بنایا تاکہ اس کے والد کو اپنے فرائض ادا کرنے میں آسانی ہو جائے۔ پاسکل کا بنایا ہوا یہ ڈبہ چالیس برس تک استعمال ہوتا رہا اور اس ڈبے کو اس کے موجد کے نام پر پاسکو لائن کا نام دیا گیا 1864 ءمیں ایک جرمن ریاضی دان گوت فرائید نے پاسکو لائن میں بہتری پیدا کی اور موجودہ کیلکو لیٹر سے ملتا جلتا ایک آلہ بنایا یہ سائز میں بہت بڑے ہوتے تھے 1948 ءمیں جب ٹرانسسٹر ٹیکنالوجی ایجاد ہوئی تو انٹر نیٹ فیلڈ میں انقلاب برپا ہوگیا اور یہ آلے مختصر ہوتے چلے گئے جبکہ تجارتی بنیادوں پر ان کی پیداوار 1976 ءمیں شروع ہوئی جب امریکی کمپنی ا ±پل نے کمپیوٹر سازی شروع کی مگر 1977 ءبل گیٹس اور پال ایلن نے مائیکروسافٹ کمپنی کی بنیاد ڈال کر انٹر نیٹ کو دنیا بھر میں متعارف کروادیا۔
سمندر پار پیغام رسانی کے لئے سب سے پہلے 1858 ءمیں بحر اوقیانوس میں اٹلاننک کیبل بچھائی گئی مگر یہ چند روز بعد ہی بعض تکنیکی خامیوں کی وجہ سے خراب ہو گئی پھر 1866 ءمیں دوبارہ کیبل بچھائی گئی جو کم و بیش سو سال تک کامیابی سے کام کرتی رہی جب 14 اکتوبر 1957 کو سابقہ سویت یونین نے اپنا پہلا 184 پونڈ وزنی مصنوعی سیارہ (سپوٹنگ) نامی زمین کے مدار میں چھوڑا تو 1958 ءمیں امریکی وزرات دفاع نے ایڈوانسڈ ریسرچ پراجیکٹس ایجنسی (آرپا) بنائی جس میں شامل افراد کی شب و روز محنت سے صرف 18 ماہ میں ہی امریکہ اپنا مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجنے کے قابل ہو گیا۔ 1962 ءکو جب آرپا کی قیادت ڈاکٹر جے آر سی کو ملی تو انہیں انٹر نیٹ کے استعمال کے بارے میں تحقیق سونپی گئی 1972 میں آرپا کی جگہ ڈراپا (ڈیفنس ایڈوانسڈریسرچ پراجیکٹ ایجنسی ) نے لے لی اور انٹر نیٹ کا تجارتی سطح پر استعمال شروع ہوا اور واشگٹن کے بلٹن ہوٹل کے بیسمنٹ میں پہلا عوامی نیٹ کیفے بنایا گیا اور آج دنیاکے تمام ممالک کے شہروں اور قصبوں میں انٹر نیٹ کیفے موجود ہیں اور انٹر نیٹ کا استعمال ہو رہا ہے۔جبکہ فائبر آپٹک کیبل نیٹ ورک SEA-ME-WE-2(جنوب مشرقی ایشیائ،مشرق وسطیٰ ،مغربی یورپ2، سب میرین کیبل پرا جیکٹ پر کام1980ءکی دہائی کے آخر میں شروع کیا گیا۔سنگا پور ٹیلی کام اور فرانس ٹیلی کام نے 1993میں ابتدائی تحقیق کے بعد کیبل استعداد کو یورپ سے ایشیاء پیسیفک ریجن تک بڑھانے کے منصوبے پر کام کا آغاز کیا۔دسمبر1994ء میں سولہ پارٹیوں نے ہم آہنگی کی ایک یادداشت پر دستخط کیے جس کے تحت SEA-ME-WE-2پراجیکٹ کو مغربی یورپ اور سنگا پور کے درمیان بڑھانا تھا۔نومبر1996ءمیں پھر ایک اضافی ہم آہنگی کی یادداشت پر دستخط کیے گئے جس کے تحت اس سسٹم کو سنگا پور سے مشرق بعید اور آسٹریلیا تک بڑھانا تھا۔ آخر کار جنوری 1997ءمیں92بین الاقوامی کمپنیوں نے SEA - ME - WE - 2 کی تعمیر اور مینٹی نینس کا معاہدہ کر لیا اور2000ءکے آخر تک مکمل نیٹ ورک تیار کر لیا گیا۔
جبکہ SEA-ME-WE-3چار براعظموں کے33ممالک میں39لینڈنگ پواینٹس پر مشتمل ہے جس میں جرمنی ، برطانیہ اور فرانس بھی شامل ہیں۔یہ مغربی یورپ سے شروع ہو کر مشرق بعید سے آسٹریلیا تک پھیلا ہوا ہے۔ان میں چین ، جاپان اور سنگا پور بھی شامل ہیں۔یہ نظام39ہزار کلو میٹر لمبا دنیا کا طویل ترین سسٹم ہے اور اس کے نیٹ ورک میں فاصلے کے ساتھ ساتھ صلاحیت بڑھانے کی گنجائش موجود ہے۔ ہائی کوالٹی ٹرانسمیشن جرمنی سے آسٹریلیا تک جا سکتی ہے۔اگست 2003ءکے بعد سسٹم کی صلاحیت کو دوبارہ اپ گریڈ کیا گیا اور اس وقت دو فائبر پیئرز آٹھ Wave Lengthفی کس کے حامل ہیںجبکہ کچھ 10 پر آپریٹ ہوتے ہیں اور باقی2.5جی پر آپریٹ ہوتے ہیں۔Wave Length
اس منصوبے کے نافذ العمل اور اس کی بحالی کے انتظامات کا جائزہ لینے کیلئے انتظامیہ کا سالانہ اجلاس ہوتا ہے اور اس امر کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ کسٹمر سروس میں کہیں کوئی خامی تو نہیں ہے جبکہ کسی قسم کی خامی کی صورت میں اس کے تدارک کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔انتظامیہ ہر وقت کسی نہ کسی متبادل انتظام اور دوہرے نظام کی تلاش میں رہتی ہے۔کنسورشیم کے انجینئر اور رابطہ آفیسر ٹریفک کے انتظامات اور اس کے موثر ہونے کا جائزہ لیتے ہیں۔تاہم مجموعی طور پر اگر ضرویات کا پہلے سے اندازہ ہو جائے تو اس کے مطابق سروس مہیا کی جاتی ہے جبکہ بعض حالتوں میں انفرادی طور پر کنسوریشیم کے رابطہ آفیسر کے متعین طریقہ کار سے ہٹ کر بحالی کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔
 

No comments:

Post a Comment