December 27, 2010

بائیو ایندھن،توانائی کا ذریعہ......(Issue # 50)


بائیوایندھن مستقبل کا سب سے مشہور ایندھن ہے،مختلف ذخائر جیسے کوئلہ، تیل اور دوسرے ذخائر جلد ختم ہو سکتے ہیںمگر بائیوایندھن کو مختلف طریقوں سے بنایا جا سکتا ہے۔بائیوایندھن کوماحول دوست بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے استعمال سے خارج ہونے والی گیسز نقصان دہ نہیں ہوتیں۔بائیوایندھن کو گنے، درخت، پودے، سبزیوں کے تیل، جانوروں کی چربی اور متعددفصلوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے جبکہ اس کا سب سے زیادہ استعمال برازیل اورامریکہ میں کیا جاتا ہے۔ برازیل میں 80 فیصد گاڑیوں کو بائیو ایندھن کی مدد سے چلایا جاتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق دنیا میں بائیوایندھن کے ذریعے گاڑیوں کا 1.8 فیصدتیل حاصل کیا جاتا ہے جبکہ اب تک دنیا میں 4 بلین سے ذائد سرمایہ کاری بائیوایندھن حاصل کرنے سے کی جا چکی ہے۔کیونکہ بائیو ایندھن ماحول دوست ہے اور اس کے استعمال کے نتیجہ میںماحول صاف ستھرا رہتا ہے اس لئے بیشتر ممالک اب بائیو ایندھن پر انحصار کر نے لگے ہیں۔ امریکہ بائیو توانائی پر بہت بھروسا کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں بائیو ایندھن کو متعدد گاڑیوںمیں استعمال کیا جاتا ہے،اس کے علاوہ فصلوں کی پیداوار بھی بائیوٹیکنولوجی کے ذریعے بڑھائی جا رہی ہے۔
اکثر تالابوں، سمندر کے کنارے، ندی، نالوں اور کھڑے پانی میں سبزرنگ کی گندگی نظر آتی ہے جس کو ہم کائی یاانگریزی میں algae)) کہتے ہیں ،اس کائی سے بھی بائیو ایندھن کو بنایا جا سکتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ خدا تعالی نے کوئی بھی چیز بلا وجہ یا بلا مطلب نہیں بنائی ہے۔اس چیز کا کوئی نہ کوئی مطلب ضرور ہے اسی طرح کائی بھی کسی مقصد کے لئے بنائی گئی ہے ۔کائی میں وہ طاقت ہے جس کی بدولت ہم بائیو ایندھن کو حاصل کر سکتے ہیں۔لیبارٹری تحقیق کے مطابق دوسری تمام فصلوں کی نسبت کائی سے 30 فیصد زیادہ توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
پاکستان وہ ملک ہے جو تیل کی درآمد پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ کر دیتا ہے اور پھر بھی تیل کی کمی کا سامنا ہے۔ پاکستان میںتیل کی کمی کو پورا کرنے کے لئے متبادل ذرائع تلاش کرنا بہت اہم ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو شروع ہی سے ذرعی ہے اور زیادہ تر آبادی ذراعت سے وابسطہ ہے۔ ملک میں بائیو ٹکنولوجی کے ذریعے نہایت سستا اور عام ایندھن کی نسبت ماحول دوست ایندھن پیدا کیا جا سکتا ہے۔ بائیو ایندھن زیادہ مہنگا بھی نہیں ہے،صرف اس کی ٹیکنولوجی کوپاکستان میں لا کر ایندھن کو مختلف سبزیوں اور گند وغیرہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی مختلف شوگر ملوں سے نکلنے والے فضلے سے بائیو ایندھن کو بنایا جا سکتا ہے اور یہ ایندھن آج کل کے پٹرول اور ڈیزل سے زیادہ سستا ہے۔شوگر ملوں سے حاصل شدہ بائیو ایندھن نہ صرف سستا ہے بلکہ ماحول دوست بھی ہے۔ پاکستان میں موجود کیمیکل انڈسٹریز شوگر مل سے راب لے کر اسے ایتھائل الکوحل میں تبدیل کرکے باہر بھجوا کر زرمبادلہ حاصل کر رہی ہیں جن میں سرگودھا کی کرسٹلائین کیمیکل انڈسٹریز قابل ذکر ہے۔ اگر اس حاصل شدہ مادے یا راب کو صحیح طریقہ سے استعمال کیا جائے تو پاکستان میں نہایت سستا ایندھن تیار کیا جاسکتا ہے۔
شوگر انڈسٹریز میں گنے کے بچے ہوئے مادے سے ایندھن حاصل کر کے پاکستان بیرونی منڈیوں سے درآمد کردہ ایندھن سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے اور اس طرح سالانہ کروڑوں روپے بچائے جا سکتا ہے۔
پاکستان میں آزمائشی طور پر بائیو فیول ECO-I پٹرول پمپوں پر متعارف کروایا جا چکا ہے۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہم جو چائے پیتے ہیں اس کی پتی استعمال ہونے کے بعد ایندھن بنانے کے کام آ سکتی ہے یعنی چائے پینے کے بعد اس کی پتی کو ضائع کرنے کے بجائے ایندھن بنانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے،چائے کی پتی میں تقریباَ 20 فیصد تیل موجود ہوتا ہے۔ حکومت صرف بائیوایندھن کی طرف توجہ دے اور کچھ اداروںکوبائیو ایندھن کی تیاری کی طرف لگا دے تو ملک میں توانائی کے بحران کو بھی روکا جا سکتا ہے۔ چائے کے علاوہ کافی سے بھی بائیو ایندھن کا حصول ممکن ہے ۔ماہرین کے ایک گروپ کا کہناہے کہ دنیا میں ہر سال تقریباً 16 کروڑ پونڈ کافی پیدا ہوتی ہے۔سائنس دانوں کا خیال ہے کہ استعمال کے بعد کافی کے ان پسے ہوئے بیجوں سے 34 کروڑ گیلن بائیو ایندھن حاصل کیا جاسکتاہے۔روزانہ کے ضائع کےے جانے والے کوڑے سے ایندھن پیدا کیاجا سکتا ہے،اس کے علاوہ کھاد سے بھی ایندھن پیدا کیا جا سکتا ہے۔پاکستان میں ہر روز تقریباَ60,688 ٹن کوڑا دریاﺅں اور نالوں میں پھینکا جاتا ہے۔ کوڑے کی مقدار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم کتنی بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔بائیوایندھن کے حصول کے ذریعے ماحول بھی صاف ستھرا ہو جائے گا اور بجلی کے تمام مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔
پاکستان سعودی عرب سے ایک دن میں250,000بیرل تیل درآمد کرتا ہے۔اگر پاکستان صرف سعودی عرب سے اتنا تیل درآمد کرتا ہے تو باقی ممالک سے کتنا کرتا ہو گا اوردرآمد کرنے پر کتنی رقم خرچ ہوتی ہو گی؟ یقیناَ کروڑوں روپے کا ضیاع ہو رہا ہے اور اس نقصان سے بچنے کے لئے بائیو ایندھن کا حصول ضروری ہے۔روزانہ تیل کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں اور مستقبل میں مزید بڑھیں گی، مہنگائی کو گلے لگانے سے بہتر ہے کہ ملک میں خود ہی حکومت تیل کے حصول کا کوئی ذریعہ ڈھونڈ لے۔
بائیوایندھن کو کسی بھی مقصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تاہم اسے بنیادی طور پر ٹرانسپورٹ کے شعبے میں استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ ایندھن گرین ہاو ¿س گیسوں کے خراج کو کم کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ انہیں توانائی کے تحفظ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سے نکلنے والا ایندھن دھیرے دھیرے ختم ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ د ±نیا بھر میں بائیوایندھن کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ ایشیا، یورپ اور امریکہ بائیو گیس اور ایندھن پیدا کرنے والے بڑے خطے ہیں۔
ہوائی جہازوں میں بھی بائیوایندھن کے استعمال کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے۔ گزشتہ سال ایک برطانوی نجی فضائی کمپنی نے بائیوتیل کو بطور ایندھن استعمال کرنے کا کامیاب تجربہ کیا۔ ورجن اٹلانٹک کے ایک طیارے نے لندن سے ایمسٹرڈیم تک پرواز کی، تاہم طیارے میں مسافر سوار نہیں تھے۔ طیارے میں استعمال ہونے والا ایندھن باباسو اور ناریل کے تیل سے تیار کیا گیا تھا، جس سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی مقدار کم ہوتی ہے۔تاہم حیاتیاتی ایندھن کے استعمال پر تنقید بھی کی جاتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے استعمال سے خوردنی تیل اور اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
یورپی یونین کی اس پالیسی پر بھی تنقید کی جا رہی ہے جس کے تحت 2020 تک گاڑیوں کے لئے دس فیصد ایندھن پودوں سے حاصل کیا جائے گا۔لیکن مہنگائی اور ماحول کو صاف رکھنے کا حل بھی بائیو ایندھن ہے کیونکہ بائیو ایندھن کئی طریقوں سے پیدا کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی نے بائیو ایندھن کے حصول کے لئے کراچی میںپودے لگائے ہیں اورپی ایس او نے یہ قدم تیل کی قیمتوں کو قابو کرنے کے لئے اٹھایا ہے۔بائیو ایندھن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قیمت ہے۔ سائنس دان ایک عرصے سے کوئی ایسا متبادل ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں جو زمین سے حاصل ہونے والے تیل کی نسبت سستا ہواور اس کی تیاری آسان ہو۔

No comments:

Post a Comment