June 06, 2011

کپاس کی متوازن اقسام کی کاشت کے ذریعے زیادہ پیداوار ممکن


(ڈائریکٹر ادارہ تحقیقات کپاس فیصل آباد ڈاکٹر عابد محمود سے ڈاکٹر اعجاز تب
سم کی چند باتیں)

کاٹن انسٹیٹیوٹ فیصل آباد میں تعیناتی سے پہلے کیا کرتے تھے؟
کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ فیصل آباد میں تعیناتی سے قبل زرعی تحقیقاتی ادارہ چکوال میں بطور ڈائریکٹر خدمات سر انجام دیتا رہاں ہوں، اس کے علاوہ آسٹریلیا سمیت تیس سے زائد ممالک میں زرعی تحقیقاتی شعبے کے حوالے سے تسلی بخش کام کیا ہے۔
آپ نے تعلیمی تحقیقی کیرئر کا آغاز کیسے کیا؟

کیمبرج یونیورسٹی انگلینڈ سے ایم فل اور پھر اسی یونیورسٹی سے اسکالر شپ حاصل کرکے پی ایچ ڈی، نمراسکاسینٹ یونیوسٹی امریکہ سے تعلیمی تحقیقی کیرئیر کا آغا ز کرنے کے بعد پاکستان میں کپاس کی بہتر پیداوار کے مختلف پراجیکٹس پر کامیاب تحقیقی کام کیا۔
کاٹن انسٹیٹیوٹ فیصل آباد میں کونسی تحقیقی سرگرمیاں جاری ہیں؟
زرعی سائنسدانوں کی تحقیق و تجربات کے نتیجہ میں کئی کامیاب اقسام تیار کی گئی ہیں جن کی پیداواری صلاحیت زیادہ ہونے کے علاوہ کیڑے اور وائرس سے بچاﺅ اور کم پانی کھاد کے باوجود وہ خاطرہ خواہ منافع بخش اور بہترین کوالٹی کی خصوصیات سے مزین ہیں۔ سائنسدانوں نے ایک ایسا جین تلاش کیا ہے جس میں بی ٹی جین شامل کرکے ایک ایسی قسم تیار کی جارہی ہے جو کم لاگت کم کھاد سپرے کم پانی کے ساتھ بھی زیادہ پیداورا کی صلاحیت کی حامل ہوگی اس قسم کی چند ایک اقسام اسی سال حکومت کو منظوری کیلئے پیش کردی جائیں گی۔ فصلوں پر زرعی ادویات اور سپرے وغیرہ کے مضر اثرات کے حوالے سے مختلف نظریات موجودہیں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اشیاءماحول اور انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب کرتی ہیں۔ بعض سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ان کے استعمال کے شیڈول اور متوازن کلینکل سیٹ اپ کے ذریعے نہ صرف مضر اثرات سے کافی حد تک بچا جاسکتا ہے بلکہ زیادہ پیداورا کے حصول کی منزل بھی حاصل کی جاسکتی ہے یعنی کھانے پینے کی سبزیوں پھلوں پر کم سے کم مضر صحت ادویات کا استعمال کیا جائے اور انھیں اس انداز سے تیار کیا جائے کہ ان کے مضر اثرات ہفتہ دس دن بعد ختم ہوجائیں، فصل کاٹنے سے دو ہفتے قبل آخری سپرے کرکے ان مضر اثرات سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ تحقیق و تجربات ایک مسلسل عمل ہے جو جاری رہتا ہے اسے مسلسل نئے چیلنجز کا بھی سامنا ہے ماحول اور موسم کی تبدیلیاں نئی نئی بیماریوں اور مسائل کا باعث بنتی ہیں اسی طرح ہمارا بدلتا کراپنگ سسٹم بھی نت نئے نئے مسائل پیدا کرتا ہے جنہیں حل کر نا بحرحال ہماری قومی ذمہ داریوں کا حصہ ہے جس کیلئے ہم مکمل یک سوئی کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ وائرس بھی موسمی تغیرات اور ماحول کی تبدیلی کے ساتھ اپنی ہیئت اور طور اطوار تبدیل کرلیتا ہے ایک وقت میں کامیاب ورائٹی دوسرے وقت میں مسائل سے بھی دوچار ہوسکتی ہے لیکن کامیاب تحقیقی سفر کی بدولت FH-113 اور MNH-93 سمیت 6-5 اقسام کئی لحاظ سے ایسی اقسام ہیں جو اب تک شاہکار اقسام قرار دی جاسکتی ہیں۔ ادارہ کی تحقیقی جدوجہد کا ہدف یہ ہے کہ کم پانی کم کھاد اور محدود سپرے کے ساتھ نامساعد حالات میںبھی زیادہ پیداوار کی حامل اقسام تیار کرکے کھیتوں میں عام کی جائیں۔ بی ٹی اور نان بی ٹی کپاس کو پاکستان میں جن مسائل کا سامنا ہے ان سے نمبرد آزما ہونے کیلئے نہ صرف حکومتی سطح پر جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے بلکہ کاشتکاروں زمینداروں کو بھی تعلیم و تربیت فراہم کرنا ضروری ہے ۔زرعی سائنسدان کپاس کی فصل کو نقصان پہنچانے والے رس چوسنے والے کیٹروں اور سنڈیوں کیخلاف زرعی ادویات اور سپرے کے استعمال کے علاوہ پودے کی ریسرچ کرکے ان فصل دشمن قوتوں کیخلاف زیادہ قوت مدافعت والی اقسام کی تیاری کیلئے سر گرم عمل ہیں تحقیقی اداروں کو فراہم بجٹ کا بڑا حصہ تنخواہوں اور انتظامی امور پر صرف ہوجاتا ہے جبکہ تحقیقی سرگرمیوں کیلئے معمولی اور مخصوص محدود وسائل یقیناحالات کے تقاضوں کی تکمیل میں رکاوٹ ہیں ان مسائل کے باوجود گزشتہ سال آٹھ نئی بی ٹی اقسام نام کی منظوری دی گئی بی ٹی کپاس کی اقسام کو امریکہ میں 1990

¾1992 میں اپنایا گیا جبکہ ہمارے ہاں ان اقسام کو بہت دیر تک نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان میں 1992 کے دوران وائرس آیا تو 1993اس وائرس کے شدید حملے نے زرعی سائنس دانوں کو تحقیقی کام کا نیا رخ اور نیا چیلنج دیا جس پر زرعی سائنس دانوں نے شب و روز کی محنت اور تحقیقی کاوشوں کے ذریعے 1995 میں وائرس کیخلاف موثر اقدامات متعارف کروا دئیے۔

زرعی ترقی کے اعتبار سے تعلیم کی کیااہمیت ہے؟
انہوں نے کہا کہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم زمینداری کاشتکاری کیلئے علم و حکمت سے خالی افراد پر انحصار کرتے ہیں اس شعبے کیلئے تعلیم اور تربیت کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ ہمارے ہاں کھیتوں میں کام کرنے والے ننانوے فیصد افراد غیر تعلیم یافتہ ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں ترقی یافتہ ممالک میں کمپیوٹر اور سٹلائیٹ سے بھی رہنمائی حاصل کی جارہی ہے کھیت میں کام کرنے والے نہ صرف زرعی شعبے میں کوالیفائیڈ اور تربیت یافتہ ہوتے ہیں بلکہ وہ جدید تحقیق اور جدید کاشتکاری کے اصولوں پر عمل کرکے نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے ملک کیلئے بھی ریکارڈ فائدہ سمیٹ رہے ہیں۔ ہماری کسان اگر تعلیم یافتہ ہوتے تو نہ صرف زرعی ٹیکنولوجی کو ملک میں فروغ دینا آسان ہو جاتا بلکہ زرعی پیداوار میں بھی اضافہ ہو جاتا۔
کپاس کی پیداوار میں کس طرح اضافہ کیا جا سکتا ہے؟
زرعی ادارے کی تیار کردہ کپاس کی متوازن اقسام کی کاشت کے ذریعے زیادہ پیدا وار اور خاطر خواہ آمدن حاصل کی جاسکتی ہے۔ اگرچہ حکومت کپاس کی پیداوار میں اضافہ کیلئے محکمہ زراعت کے ذریعے کاشت کاروں کی رہنمائی اور ہر ممکن سہولتوں کی فراہمی کیلئے کوشاں ہے لیکن اس سلسلے میں تحقیقی سرگرمیوں اور انھیں کھیت میں اپلائی کرنے کیلئے مزید جامع عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اچھے بیج کھاد سپرے اور پانی کی مناسب فراہمی کے ساتھ زرعی ماہرین کی تحقیقی تجرباتی رہنمائی کے ذریعے پاکستان میں کپاس کی اوسط فی ایکٹر پیداوار ساٹھ۔ ستر من سے بڑھا کر ایک سو من فی ایکڑ سے زائد کا حصول ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں کپاس کی اقسام کو دو گروپوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ایک دیسی کپاس اور دوسری امریکن کپاس دیسی کپاس پیداوار میں ریشے کی لمبائی کم جبکہ کوالٹی اور موسمی شدت کے مقابلہ میں بہتر شمار کی جاتی ہے اسے کیڑا کم لگتا ہے اور وائرس نہیں لگتا جبکہ ولایتی یاامریکن کپاس پیداوار میں کئی گنازیادہ ریشے کی لمبائی بھی زیادہ اور کوالٹی بہت ہی اعلیٰ ہوتی ہے اگرچہ اس پر کیڑے اور وائرس کے حملہ کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں تاہم عمدہ قسم کی کاٹن اور لان کی تیاری اسی جدید کپاس کے ذریعے کی جاتی ہے۔
زرعی ترقی میں بہتری کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے؟
پاکستان کی آبادی جو 1947ءمیں ساڑھے تین کروڑ تھی اب بڑھ کر سولا کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے مگر یہاں فصلوں کو سیراب کرنے کا اسٹرکچر پانی کی مناسب فراہمی اور زرعی تحقیقی کو کھیتوں میں کاشتکاروں تک پہنچانے کے اقدامات کسی طرح بھی اطمینان بخش نہیں ہیں ۔پھر بیج کھاد زرعی ادویات اور جدید زرعی مشینری کی مناسب قیمت اور مقدار میں فراہمی کیلئے بھی بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے۔امریکہ آسٹریلیا یا دیگر ممالک میں ایک سال کے دوران ایک فصل پر بھر پور توجہ اور جدید کاشتکاری کے اصولوں کو اپنا کر ریکارڈ پیداوار حاصل کی جاتی ہے جبکہ ہمارے ہاں سال میں دو یا اس سے بھی زیادہ فصلیں حاصل کرنے کا رحجان توہے مگر جدیدکاشتکاری اور فصلوں پر خاطر خواہ توجہ سے گریز اورپانی کی کمی کی وجہ سے ہم بعض دیگر ممالک کے مقابلے میں کم پیداوار حاصل کرتے ہیں تاہم بعض کامیاب جدید کاشتکار اچھے بیج کھاد اور زرعی ادویات کے بروقت اورمناسب استعمال کی بدولت عام کاشتکاروں سے دو گنا پیداوار حاصل کررہے ہیں سندھ میںامریکن کپاس کی پیداور ایک سو من فی ایکڑسے زائد بھی حاصل کی جارہی ہے۔

No comments:

Post a Comment