January 26, 2011

آبی ذخائر اور توانائی کی پیداوار

 
Volume2, Issue 4

سید محمد عابد

پانی حضرت انسان کے لئے دنیا کی ابتداءسے ہی اہم رہا ہے، خداتعالی نے پانی کو انسان کے لئے اتنا اہم کر دیا ہے کہ اس کے بغیرزندگی نا ممکن ہے۔پانی کی ضرورت ہر انسان، چرند اور آبی حیات کوہے۔ پانی کا استعمال زندگی میں روزانہ کیا جاتا ہے، مکان کی بناوٹ سے لے کر صفائی تک، درخت اورپودوں کے اگنے سے لے کر نشرونما تک اور متعدد آبی حیات کی نشرونما بھی اسی کی بدولت ہوتی ہے۔ ہمارے ملک پاکستان کی زمین کی زرخیزی جس پر فصلوں کی پیداوار کا بہت اثر پڑتا ہے وہ بھی بھی پانی ہی کی بدولت ممکن ہے۔دنیا میں پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہر ملک اپنے ا آبی ذخیرے بناتا ہے جہاں پانی کو ذخیرہ کر کے اسے ضرورت کے تحت استعمال کیا جاتا ہے۔اس پانی کو ذخیرہ کر کے اس سے بجلی بھی بنائی جاتی ہے جس کو ہائیڈرو بجلی کہا جاتا ہے اور یہ بجلی ملک میں بجلی کی ضروریات کوپورا کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔
پاکستان میں پانی کی ضروریات اور بجلی کی پیداوار کے لئے دوڈیمز منگلا اور تربیلا بنائے گئے تھے۔ آخری تعمیر ہونے والا ڈیم تربیلا ڈیم تھاجس کی اونچائی 485 فیٹ جبکہ 250 سکیئر کلو میٹر تک پھیلا ہواہے اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلح ہری پور میں اسے 1971ءبنایا گیا تھا، ڈیم سے 3,400 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس سے پہلے منگلا ڈیم کی تعمیر 1967ءمیں کی گئی جس کو ضلح میر پور میںبنایا گیا ،ڈیم 454 فیٹ اونچا اور 10,300 فیٹ لمبا ہے جبکہ ڈیم میں دس پاور جنریشن پلانٹ نصب ہیں جن سے 1000 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ 1971ءکے بعد یہاں کوئی بھی بڑا ڈیم نہیں بنایا گیاجو کہ پانی کے ذخیرے کے لئے ضروری ہے۔تربیلا اور منگلا ڈیم میںپانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے، ڈیمز مٹی اور گارے سے بھرتے جارہے ہیں۔اگر جلد ہی کوئی بڑا ڈیم نہ بنایا گیا تو پانی کی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سال 2010ءمیں آنے والے سیلاب نے ثابت کر دیا کہ پاکستان کو سیلاب سے بچاﺅ، فصلوں کو سیراب کرنے اور بجلی کی پیداوار کے لئے ایک بڑے ڈیم کی ضرورت ہے۔ سیلاب کے دوران کپاس کی فصلوں کو شدید نقصان ہوا اور بیشتر لوگوںکے گھر اورکھیت تباہ ہو گئے اور روزانہ اتنا پانی دریاﺅں میں بہادیا گیا جتنا ایک یا دو ڈیم بنانے کے لئے کافی ہوتا ہے ۔اگر اس دوران پاکستان میں منگلا اورتربیلا کے علاوہ ایک بھی اور برا ڈیم موجود ہوتا تو نہ صرف پانی کی وسیع مقدار ذخیرہ کی جا سکتی تھی بلکہ حالیہ بجلی کی کمی کو پورا کیا جا سکتا تھا۔ پاکستانی زرعی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈیموں کی تعداد زیادہ ہونے سے ملک میں حالیہ سیلاب کی شدت میں کمی لائی جا سکتی تھی اور آب پاشی کے لئے مزید پانی دستیاب ہو سکتا تھا۔ آخری 35 سے 40 سالوں کے دوران ڈیمز کے بنے کی باتیںتو کی جاتی رہیں ہیںمگراس اہم مسئلے کو سیاست کی نظر کر دیا جاتا رہاہے۔ جب بھی ڈیم بنانے کی بات آتی تو کالا باغ ڈیم کا نام لے لیا جاتا جس کی حکومت بلوچستان سخت مخالفت کرتی ہے۔کالا باغ ڈیم ضلح میانوالی میں کالا باغ کے مقام پر بنایا جانا تھا۔ ان دنوں پاکستان کرشن گنگا ڈیم کو بنا رہا ہے جس سے 969 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکے گی۔اس ڈیم کو نیلم، جہلم کے پانی کو ذخیرہ کر کے بنایا جائے گا اور1.5 بلین کا یہ پروجیکٹ 2018ءمیں مکمل ہو گا۔دوسری جانب انڈیا بھی ایک ڈیم بنا رہا ہے جو کہ 2016 ءمیں مکمل ہو رہا ہے۔ اگر پاکستان 2016ءسے پہلے اپنا پروجیکٹ مکمل کر لے تو پاکستان کے پاس دریائے نیلم کے پانی کے حقوق ہوں گے وگرانہ بھارت کے پانی پر حق تسلیم کر لئے جائیں گے۔ تاہم پاکستان کو اس بات کا خاص کیال کرنا چائیے کہ اس پروجیکٹ کی تکمیل جلد از جلد مکمل کر لی جائے تاکہ بھارت کی آبی جارہیت سے نمٹا جا سکے۔
ایک اور ڈیم جو بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بنانے کی بات کی جا رہی ہے اور حکومت اس کو بنانے میں دلچسپی بھی ظاہر کر رہی ہے وہ دیا میر بھاشا ڈیم ہے۔ڈیم کی تعمیر پر 8.5 بلین ڈالر لاگت آئے گی جبکہ 4500 میگاواٹ بجلی کو پیدا کیا جائے گا۔ بھارت نے ڈیم کی تعمیر پر اعتراضات کیے ہیں ۔بھارت کا کہنا ہے کہ ڈیم کا منصوبہ مقبوضہ علاقے میں قائم کیاجارہا ہے جو کہ غیر قانونی ہے اور ڈیم جموں و کشمیر میں سیلاب کا باعث بھی بنے گا۔ یہ ڈیم مکمل طورپر پاکستانی علاقے میں بنایا جائے گا اس کے باوجود بھارت کااعتراض کچھ عجیب بات محسوس ہوتی ہے۔اس ڈیم کی تعمیر دریائے سندھ پر اسلام آباد سے 400 کلومیٹر، تربیلا سے 315 کلومیٹر، گلگت سے 135 کلومیٹر اور چلاس سے40 کلومیٹر کے فاصلے پر کی جائے گی۔ یہ ہماری حکومت کی سستی ہے کہ گزشتہ 30سالوں میںپاکستان میں تربیلا کے بعد ایک بھی بڑا ڈیم تعمیر نہیں کیا گیا۔ بھارت ہمارے دریاو ¿ں پر 52 ڈیم تعمیر کرنے کا پروگرام بنا رہا ہے اور اسی سلسلے میں وسیع المیعاد پروجیکٹ بھی شروع کئے جا چکے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان یہ تنازعہ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں دریائے چناب پر 2000ءمیں بگلیہار ڈیم کی تعمیر سے شروع ہوا تھا۔ جب پاکستان نے بگلیہار ڈیم کے ڈیزائن پر اعتراض کیا جسے ورلڈ بینک کے مقرر کردہ سوئس شہری پروفیسر ریمنڈ لیفیت نے درست تسلیم کیا تھا۔ایک پریس کانفرنس کر دوران چئیرمین واپڈا شکیل درانی نے کہا ہے کہ دیامیر بھاشا ڈیم کی زمین تین سال میں خرید لی جائے گی،اس منصوبے کی جلد تعمیر پاکستان کے پانی اور بجلی کے مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کی چالوں سے بچنے کے لئے بھی ضروری ہے۔
پاکستان کے نیشنل انجنئیرنگ و سائنٹیفک کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 4 کروڑ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ نہ ہونے کے باعث سمندر میں جا گرتا ہے جس سے پاکستان تقریباً 240 ارب روپے کی ممکنہ آمدنی سے محروم ہو جاتا ہے۔پاکستان کی مجموعی ملکی پیداوار میں تقریباً 21 فی صد حصہ رکھنے والی زراعت کو پانی کی قلت کا دیرینہ مسئلہ درپیش ہے۔ عالمی بینک نے 2006 میں خبردار کیا تھا کہ ملک آبی وسائل کے دباو ¿ سے آبی قلت کی جانب بڑھ رہا ہے اس کے باوجود کوئی خاص توجہ نہ دی گئی۔
وزارت پانی و بجلی کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق حالیہ سیلاب کے بعد منڈا ڈیم کو فوری طور پر شروع کرنے کا اعلان کیا گیاحالانکہ اس ڈیم کی بارہ برس قبل فزیبلٹی رپورٹ تیار ہوچکی ہے اس کے باوجود ڈیم کی تعمیرپر کوئی پیش رفت نہیں کی گئی۔ذرائع کے مطابق دریائے کابل اور ارد گرد کے دیگر چھوٹے بڑے ندی نالوں کا سارا پانی اس ڈیم میں گرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حجم کے ڈیم کی تعمیر میں عموماً سات سے دس سال لگ سکتے ہیں۔سرکاری ذرائع کے مطابق سات سو چالیس میگا واٹ بجلی پیدا کرسکنے کی صلاحیت رکھنے والے اس ڈیم کی تعمیر میں دس سال پہلے لگائے جانے والے تخمینے کے مطابق سوا ارب ڈالر لاگت آ سکتی ہے۔اس منصوبے کی تعمیرکےلئے ایشیائی ترقیاتی بنک نے تعاون کی خواہش ظاہر کی ہے۔
پاکستان میں بنائے جانے والے کسی بھی پروجیکٹ میںتاخیرکرپشن کی وجہ سے ہوتی ہے اس کی وجہ صرف حکومت نہیں بلکہ حکومت میں شامل کچھ ایسے کرپٹ افسران بھی ہیںجو اپنے فائدے کے لئے ملک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان افسران کے خلاف کارروائی کی سخت ضرورت ہے۔ان لوگوں کے خلاف اگر کارروائی نہ کی گئی توآنے والے وقتوں میں پاکستان مزید مسائل میں مبتلا ہو جائے گا۔
وفاقی وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف کے مطابق پاکستان میں سد پارہ اور گومل زام ڈیم کی تعمیر کے لئے امریکہ سے معاہدہ ہوگیا ہے جس کے تحت امریکہ پاکستان کو 66 ملین ڈالر ڈیمز کی تعمیر کے لئے دے گا، ان منصوبوں سے سترہ سو میگا واٹ اضافی بجلی پیدا کی جا سکے گی۔

No comments:

Post a Comment