January 31, 2011

توانائی کا بحران

فاطمہ اعجاز
پاکستان کی معیشت مسلسل بدحالی کی طرف جا رہی ہے۔ معاشی بدحالی کا سب سے بڑا عامل توانائی کے شعبے کا بحران ہے۔ توانائی کے تمام ذرائع بشمول بجلی، گیس، سی این جی اورپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئی ایم ایف کے احکامات کی بدولت مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اگر ہم اپنے ماضی کی طرف نظر دوڑائیں تو ہم جان جائیں گے کہ 90ءکی دھائی میں واپڈا نہ صرف لاکھوں لوگوں کے روزگار کاضامن تھا بلکہ لوگوں کو سستی بجلی بھی مہیا کر رہا تھا حتی کہ 60 ارب روپے کی سالانہ تک کی کمائی ٹیکسوں کی صورت میں قومی خزانے کے لئے گراہم کرتا تھا۔ واپڈا تن تنہا کئی منصوبے بھی چلا رہا تھا۔ پورے ملک کے طول وعرض میں اس کے دفاتر اور ریسٹ ہاﺅسز قائم تھے حتی کہ واپڈا کے چیئر مین کے لئے اپنا ہوائی جہاز بھی تھا۔ واپدا پورے ملک کے پانی اور بجلی کے معاملات کا ذمہ دار تھا پھر دیکھتے ہی دیکھتے بجلی کو پانی سے الگ کر دیا گیا، جنریشن کو ڈسٹری بیوشن سے الگ کر دیا گیا، واپڈا کو واپدا سے الگ کر دیا گیا۔ کارپوریشن قائم ہوئیں ، بھاری معاوضوں پران کے چیئرمین مقرر ہوئے لیکن کوئی بھی ملک کو اندھیروںسے نہین بچا سکا۔ منیجمنٹ بھاری بھرکم ہوتی چلی گئی جبکہ بجلی کی فراہمی مزید مشکل ہو گئی اور ملک بجلی کی لوڈشیڈنگ میں ڈوب گیا۔
1994ء میںگرین فیول کے استعمال کے فروغ کے لئے سی این جی پالیسی کا اعلان کیا گیا۔ اس وقت سی این جی اور پٹرول کی قیمتون میں 50 فیصدکا فرق تھا یعنی فی لیٹر پٹرول کی قیمت سی این جی کے 1 کلو گرام سے ڈبل تھی۔ اس لئے سی این جی کی ترقی کے ملک میں روشن امکانات موجود تھے۔ اس شعبے سے وابسطہ ڈیلروں، مینوفیکچرز کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی اور ایف بی آر نے معاملات کی بہتری میں حصہ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک میں سی این جی کا گاڑیوں میں استعمال عام ہو گیا۔دس سال کے اندر اس شیبے میں 100 ارب کی سرمایہ کاروی ہوئی جس سے سیکڑوں افراد کو روزگار ملا۔ اس کے علاوہ تجارت و برآمد کنندگان نے اربوں روپے کی سی این جی کٹوں کو درآمد کیا اورروزگار کے ساتھ ساتھ نقل وحرکت سے شعبے میں بہتری آئی۔
سننے میں یہ بھی آیا کہ ہماری حکومت نے سی این جی بسوں کی درآمد کی بھی حوصلہ افزائی شروع کر دی تھی۔ وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق جولائی تا نومبر 2008ء کے دوران خام تیل کی درآمد پر 2.43 ارب ڈالر خرچ ہوئے تھے جبکہ 2009ء کے اسی عرصے کے دوران درآمدی بل گھٹا کر 1.388 ارب ڈالر ہو گیاتھا۔ گویا سی این جی کے فروغ کے باعث کام تیل کی درآمد میں42.46 فیصد کمی ہوئی تھی۔ پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات 2008ءکے دوران خام تیل کی درآمد پر 2.43 ارب ڈالر رہ گئیں تھیں یعنی اس میں 21.53 فیصد کمی ہوئی تھی۔ حکومت کی سی این جی پالیسی نے درآمد بل مین کمی کی جس سے نہ صرف قیمتی ذرمبادلہ کا خرش کم ہوا بلکہ لوگوں کو نقل و حرکت کے لئے سستی گیس بھی ملی ۔یہی وجہ تھی کہ مفادیافتہ کمپنیوں میں کھلبلی مچ گئی تھی۔ اس دوران آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے یہاں اپنے کاروبار کو بھی خاصی وسعت دی۔ پٹرولیم مصنوعات کی کھپت میںاس شرح سے اضافہ نہیں ہواجس شرح سے سی این جی اور اس سے وابسطہصنعتوں میں وسعت پیدا ہوئی تھی۔ تیل کا شعبہ منظم اور عالمی معیشت کے ساتھ وابسطہ ہونے کے باعث زیادہ موئثر تھا اس لئے انھون نے سی این جی کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی اور پالیسی کو ختم کرانے کے لئے حکومت پاکستان پر دباﺅ ڈالنا شروع کر دیا۔ انھوں نے آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول کے لئے جانے والے معاہدوںمیں یہ شق شامل کروا دی کہ پاکستان سی این جی کے استعمال کے فروغ کی پالیسی کو ترک کرے گا اور پٹرول کی قیمتوں و سی این جی کی قیمتوں میں اس طرح تبدیلی لائی جائے گی کہ سی این جی کا ستعمال قابل ترجیح نہ رہے۔
اب ملک میں یہ حال ہے کہ صنعتوں کی گیس یا تو مکمل ور پر بند کر دی جاتی ہے یا پھر پریشر بہت کم کر کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ مٹی کے تیل کے مسلسل استعمال پر مجبور ہو جائیں۔ یہ تیل مارکیٹنگ کمپنیوں کے مفاد میں ہے لیکن اس سے ہماری معاشرتی، سماجھی اور اقتصادی مشکلات میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے اور یہ عمل مسلسل جاری ہے۔ آزادی کے اتنے سال بعد بھی ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ہمیں کس سمت جانا ہے۔ہم بھی کل بہتر راستہ اپنا کرترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اب تو حالات یہ ہیں کہ روز مرہ کی عام استعمال کی چیزوں کے لئے جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے اور وہ بھی ملتی نظر نہیں آ رہی ہیں۔

No comments:

Post a Comment