January 31, 2011

ماحولیاتی آلودگی ایک بڑا مسئلہ


سید محمد عابد

آلودگی دنیا میں رہنے والی اقوام کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ہے،اس سے نجات انتہائی ضروری ہے۔ آلودہ ماحول انسان کی زندگی کے لئے خطرہ ہے۔ انسان آلودہ ماحول میں سانس لے کر اپنے جسم میں بیماریوں کو دعوت دیتا ہے۔دنیا میں ماحولیاتی آلودگی میں انتہائی اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس پر قابو پانا نہ صرف انسان بلکہ جانوروں کے لئے بھی ضروری ہے۔ درختوں کا کٹاﺅ آکسیجن کی کمی کا سبب بنتا ہے جبکہ دنیا میں روزانہ کروڑوں کی تعداد میں درختوں کا صفایا کر دیا جاتا ہے جب آکسیجن ہی نہیں ہو گی تو انسان کیسے زندہ رہے گا۔ زمانہ قدیم میں انسان نے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے درختوں کا کٹاﺅ شروع کیا اور نہ سمجھ سکا کہ کٹاﺅ کے ماحول پر کیا اثرات نمودار ہوں گے۔ اس دور میں بھی انسان درخت کی لکڑی حاصل کرنے کےلئے اسے کاٹ دیتا ہے اور لکڑی کو بطور ایندھن، فرنیچر اور کاغذ کی تیاری کے لیے استعمال کرتا ہے۔ لکڑی کا استعمال تو ہو رہا ہے مگر ساتھ ہی ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔اب آلودگی کا مسئلہ انتہائی سنگین ہو چکا ہے ،اوزون کی تہہ میں شگاف پڑگیا ہے جسکی وجہ سے زمین کے درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
ہمارے ملک پاکستان کی بات کی جائے تو ملک کا ماحول شدید آلودہ ہے۔ بسوں اور گاڑیوں کا دھواں ماحول میں زہریلی گیسوں کو ج
م دے رہا ہے اورکوڑے کے ڈھیر گندگی پھیلا رہے ہیں۔ ماحول کو کوڑے اور زہریلی گیسوں کے اخراج سے بچانے کے لئے پاکستان میںنہایت موئثر انتظام کیا جا سکتا ہے۔ روزانہ صاصل ہونے والے لاکھوں ٹن کوڑے کو توانائی بنانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے اس طرح ماحول کی آلودگی اور توانائی کی کمی دونوں مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ بسوں اور گاڑیوں کے دھویں سے نمٹنے کے لئے بائیو ایندھن کا استعمال کیا جائے کیونکہ یہ ماحول دوست ہوتا ہے اور اس سے نکلنے والا دھواں ماحول کو نقصان نہیں پہچاتا۔ماہرین ماحولیات کے مطابق حکومت پاکستان اور ٹرانسپورٹرز کے درمیان روابط کے فقدان کی وجہ سے حالات مزید پیچیدگی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ماحول کی آلودگی کا سبب بن رہے ہیں۔ ماحول دوست پالیسوں اور ان پر سختی سے عملدرآمد کی ضرورت ہے تا کہ آلودگی پیدا کرنے والے عوامل پر قابو پا کر ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل ہوسکے۔
آج سے سو سال پہلے انسان جنگلوں اور غاروں میں زندگی بسر کرتا تھا جبکہ پھلوں اور بیجوں کو کھا بھوک کو مٹاتا تھا۔ پھر پوری دنیا میں صنعتی انقلاب آیا جس سے ممالک میں خوش حالی آئی لیکن صنعتوں سے خارج ہونے والے دھوئیں نے فضا اور کیمیائی مادوں نے صاف پانی کو آلودہ کر دیا۔ دوختوں کی کٹائی شروع کر دی گئی اور لوگوں نے مٹی اور پتھروں کے گھروں میں رہنا شروع کر دیا یعنی انسان نے ترقی تو کی مگر درختوں کی کٹائی شروع کر کے آلودگی کو دعوت دی۔
اسلام آباد کے سیکٹر آئی نائن اور آئی ٹین میں جوپانی فراہم کیا جا رہا ہے وہ استعمال کے قابل نہیںہے کیونکہ ان سیکٹرزکی واٹر سپلائی لائنز ٹوٹی ہوئی ہیں اور سپلائی لائن کے ارد گرد جمع گنداپانی بھی استعمال کے پانی کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے اور لوگوں میں بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ لوگوں نے آلودہ پانی سے بچنے کے لئے ٹیوب ویلزکا پانی گھروں میں استعمال کرنا شروع کر دیا ہے، روزانہ صاف پانی کے حول کے لئے ٹیوب ویل کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے حکومت کو بہتر انتظامات کرنے چاہیے۔
آلودہ پانی کی بات کی جائے تو منرل واٹر جس کو ہم جراسیم سے پاک کہتے ہیں چند ہی دنوں پہلے انکشاف ہوا ہے کہمنرل واٹر بھی صرف نام کا ہی صاف پانی ہے لوگ پیسے دے کر بھی جراثیم زدہ پانی ہی پیتے ہیں کیونکہ چند لوگ منرل واٹر کے نام پر گندے پانی کو پلاسٹک کی بوتلوں میں بند کر کے بیچ رہے ہیں اور ان لوگوں کے خلاف بہتر قانونی معیار نہ ہونے کی وجہ سے کوئی اقدام نہیں کیا جا رہا ہے۔ 
ہوا کا آلودہ ہوجانا نہ صرف ماحول بلکہ انسانوں کی صحت کےلئے بھی انتہائی مضر ہے۔سگریٹ نوشی کے دھوئیں کی مقدار 1800 مائیکرو گرام فی اسکوائر میٹر تک پائی جاتی ہے۔ تمباکو نوشی کے دھوئیں اور ہوا میں سیسے کی بڑھتی ہوئی مقدار انسانی صحت اور بالخصوص بچوں کی صحت کےلئے انتہائی خطرناک ہے جو مختلف رپورٹس سے بھی ثابت ہوچکی ہے۔
سائنس دانوں کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق اگر کاربن کے اخراج پر قابو بھی پا لیا جائے تب بھی عالمی درجہ حرارت ایک ہزار برس تک زیادہ ہی رہے گا۔سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر ماحول میں کاربن کی شرح بڑھتی رہی تودنیا کے دیگر ممالک بارشوں کی کمی کے باعث خشک سالی کا شکار ہو جائیں گے۔
کراچی سمیت ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کی بڑی وجہ فضائی آلودگی ہے جو معاشی ترقی کے ساتھ صحت مند ماحول کی راہ میں بھی ایک رکاوٹ ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماحول دوست ایندھن کا استعمال پاکستان میں شروع کر دیا جائے تو ماحول میںبہت بہتری آسکتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی فضائی اور بحری افواج کو آلودگی کی وجہ سے ہر سال اربوں روپوں کا نقصان پہنچ رہا ہے، صرف بحریہ کو ہی گزشتہ بیس سال میں ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ نیوی کے بحری جہاز اور آبدوزوں کی عمر عام طور پر تیس سال ہوتی ہے مگر آلودگی کی وجہ سے 20 سال تک ہی محداد ہو گئی ہے۔ گزشتہ20 برس کے دوران مالی کے صحرا میں220 مربع میل کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ہر سال63 ہزار مربع میل برساتی جنگلات تباہ ہورہے ہیں۔ 
پاکستان کو ہر سال پینے کے پانی کی فراہمی، نکاسی آب کی سہولیات اور صحت وصفائی کے مواقع نہ ہونے کے سبب 112 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
کراچی میںمچھیروں کی جانب سے ڈالی جانے والی مردہ مچھلیاں، جہازوں اور لانچوں کا بہنے والا گندا تیل، بغیر ٹریٹمنٹ کے فیکٹریوں سے آنے والافضلہ سمندری آلودگی میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔
ماحول کے تحفظ کے لئے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے تعاون سے حال ہی میں پاکستان کی ساحلی زمین کے تحفظ کے لئے مینگروز کے پودے لگانے کا اعلان کیا گیا ہے، صوبہ سندھ اور بلوچستان میں موجود وسیع ساحلی رقبے پر حکومت سندھ بڑے پیمانے پر مینگروز کے پودے لگائے گی، اس اقدام سے آلودگی میں کمی کرنے میں مدد ملے گی۔
ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جو بلاامتیازِ رنگ ونسل، تمام اقوام پر یکساں لاگوہو۔ اقوامِ متحدہ سے لے کر تمام ممالک کے انفرادی قوانین تک،سب اس کے پابند ہوں۔ ان انقلابی اقدامات کے بغیردنیاکوتباہی کے دہانے پہنچنے سے نہیں روکا جا سکتا۔گلیشیرز پربرفانی تودوں کا تیزی کے ساتھ پگھلنا اور موسم سرما کے دورانیے کا کم ہونا کسی بڑے انقلاب کی نوید سنارہا۔اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ماضی میں قدرتی وسائل کا جو ضیاع ہوا ہے اس کا کفارہ شجرکاری مہم کے ذریعے ادا کیا جائے۔ انفرادی سطح پر ہر شخص اپنا کردار ادا کرے۔اور ان اشیاءکا استعمال اگر ترک کرنا ممکن نہ ہو تو کم ضرور کر دے جو آلودگی کاباعث بن رہی ہیں۔


No comments:

Post a Comment