January 24, 2011

پینے کا پانی


Volume 2, Issue 4
پلاسٹک کی بوتلوں میں بندمنرل واٹر کا پاکستانی معیار مقرر نہ ہونے کی وجہ سے بازاروں ،مارکیٹوں میںنہ صرف غیر معیاری بلکہ ازخود فارمولے کے تحت بنایا ہوا مضر صحت پانی مہنگے داموں فروخت ہونے لگا اور اس کو پینے سے ہزاروں لوگ پیٹ اور معدے کی بیماریوں میں مبتلا ہو گئے جبکہ متعلقہ سرکاری ادارے قانون موجود نہ ہونے کی وجہ سے ایسا پانی فروخت کرنے والے اداروں کے خلاف کوئی بھی کاروائی کرنے سے قاصر ہیں۔تقریباً 40برس قبل دنیا میں سب سے پہلے پلاسٹک کی بوتلوں میں پینے کے پانی کی فروخت فرانس میں شروع ہوئی کہ جہاں بے انتہا صنعتی ترقی کی وجہ سے متعدد علاقوں اور شہروں کا پانی پینے کے قابل نہ رہا تو وہاں کی حکومت نے عوام کو پینے کا صاف پانی مہیا کرنے کیلئے اس کام کا آغاز کیا جو بعد ازاں سوئٹزرلینڈ اور امریکہ میں متعارف ہوا اور بعد میں یورپ کے متعدد ممالک کے بعد آہستہ آہستہ یہ مشرقی ممالک تک پہنچا۔یہ پانی ان ترقی پذیر ممالک میں بطور فیشن اور سمبل سٹیٹس کے طور پر پیا جاتا رہا مگر وقت کے ساتھ ساتھ اب یہ دنیا بھر کے ممالک کی عام مارکیٹوںاور بازاروں میں فروخت ہو رہا ہے۔پانی کی فروخت منافع بخش ہونے کی وجہ سے متعدد ملٹی نیشنل کمپنیاں دنیا کے مختلف ممالک میں اپنا بنایا ہوا پانی فروخت کر رہی ہیں جبکہ کہ لوکل سطح پرمتعدد اداروں نے اپنے ممالک میں پینے کے پانی کی پیکنگ کرنی شروع کر دی۔فرانس اور دیگر ممالک میں فروخت شروع ہونے سے پہلے وہاں کی حکومتوں نے نہ صرف پینے کے پانی کا معیار مقرر کیا بلکہ اس کی پیکنگ اورکافی عرصہ محفوظ رکھنے کے لیے مختلف کیمیائی اجزا اور مرکبات کی ترکیب مقرر کی اور اس کی تیاری ،سٹورکرنے اورفروخت کا طریقہ کار مقر ر کیااور معیار کو برقرار رکھنے کے لیے ان کمپنیوں پر چیک رکھنے کے لیے ادارے قائم کیے تاکہ عوام کو غیر معیاری اور مضر صحت پانی کی فروخت ممکن نہ ہو۔ مگر جب اس پانی کو پیک کرنے کی ٹیکنالوجی عام ہوگئی تو پاکستان میں بھی لوکل سطح پر بعض اداروں نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجازت اور انکے معیار کے مطابق پانی پیک کرنا شروع کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پلاسٹک کی بوتلوں میں پانی کی فروخت عام ہوگئی۔ اس منعفت بخش کاربار کی وجہ سے متعدد مقامی اداروں نے اپنے طور پر پانی کی تیاری کا کام شروع کردیا۔ مگر خالص خوراک کے رائج الوقت قانون پیور فوڈ رولز میں اس پانی کا معیار مقرر نہ ہونے کی وجہ سے متعدد اداروں نے از خود بنائے ہوئے فارمولا کے تحت پینے کا پانی فروخت کرنا شروع کردیا۔
ایسے میں بعض بد دیانت اور خودغرض لوگوں نے منرل واٹر کے نام پر عام پانی بھر کر فروخت کرنا شروع کردیا جبکہ اس کو محفوظ رکھنے کیلئے بھی غیر معیاری مرکبات استعمال کیے جاتے ہیں اور اس کی پیکنگ میں بھی حفضان صحت کے اصولوں کا خیال نہیں رکھا جاتا جبکہ بعض لوگوں نے مختلف کمپنیوں کی خالی بوتلوںپر اپنے سٹکر چھپوا کر دونمبر پانی بیچنے کا دھندا شروع کر دیاچنانچہ ایسا غیر معیاری اور مضر صحت پانی پینے سے روزانہ لاتعداد افراد خصوصاً بچے پیٹ اور معدہ کی مختلف بیماریوں میں نہ صرف مبتلا ہو رہے بلکہ ہلاکتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔مگر قانون میں پینے کے پانی کے اجزءترکیبی مقرر نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو خالص اور معیاری کھانے پینے کی اشیاء فراہم کرنے کے ذمہ دار سرکاری ادارے قانونی سقم کی وجہ سے ایسے اداروں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر سکتے اور اگر ارباب اختیار نے اس اہم مسئلہ کی طرف توجہ نہ دی اور ضروری قانون سازی نہ کی تو اندیشہ ہے کہ ملک بھر کے گلی کوچوں میں غیر معیاری اور مضر صحت پانی کی فروخت عام ہو جائے گی۔
دنیا بھر میں امریکہ میں پلاسٹک کی بوتلوں میں فروخت ہونے والا پانی سب سے زیادہ معیاری سمجھا جاتا ہے مگر ایک رپورٹ کے مطابق وہاں پر ہر سال ستر لاکھ کے قریب لوگ غیر معیاری پانی کی وجہ سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔امریکہ میں جہاں پر دیگر قوانین کی خلاف ورزی کو نہ صرف فوجداری جرم بلکہ اخلاقی جرم بھی سمجھا جاتا ہے وہاں سیف ڈرنکنگ واٹر ایکٹ کی خلاف ورزی بھی معاشرے میں بری نظر سے دیکھی جاتی ہے۔
پانی کو پیک کرنے کیلئے بعض افراد تقریباً ایک لاکھ روپے مالیت کی عام سی مشین استعمال کرتے ہیں جو چند سلنڈروں پائیپوں اور ٹبوں وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے اور پانی کو پیک کرنے سے پہلے اسے کاربن ، خاص قسم کی گوند اور مختلف کیمیائی مرکبات سے گزارا جاتا ہے تاکہ پانی صاف ہو جائے اور اس میں سے غیر ضروری اجزا نکل جائیں۔اس طرح پلاسٹک کی بوتل تھوک میں 1.50روپے سے 2روپے تک مل جاتی ہے جبکہ چھپے ہوئے لیبل 10سے 50پیسوں میں مل جاتے ہیں اور پیکنگ کے لیے بھی دیسی طریقہ استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی لاگت بھی 50پیسے سے زیادہ نہیں ہوتی جبکہ پانی مفت کا ہوتا ہے اس طرح ڈھائی روپے لاگت سے تیار کی ہوئی بوتل بازار میں 22روپے سے 25روپے میں فروخت ہوتی ہے جبکہ ہوٹلوں اور ریسٹورانٹ میں 50روپے سے لیکر100روپے میں فروخت ہوتی ہے۔دونمبر اور جعلی پانی کی بوتلیں زیادہ تر چھوٹے شہروں اور قصبات میں فروخت ہوتی ہے جبکہ چھوٹی دوکانوں اور متوسط اور غریب علاقوں میں فروخت ہوتی ہے۔
ڈپٹی ڈسٹرکٹ فوڈ آفیسر چوہدری منیر کا کہنا ہے کہ اصل میں پیور فوڈ رولز میں پلاسٹک کی بوتل میں بند پانی کا کوئی معیار یا اجزاءترکیبی مقرر نہیں ہے لہذا ہم ایسے پانی کو چیک کرنے کا اختیار نہیں رکھتے جس وجہ سے غیر معیاری پانی فروخت کرنے والوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جا سکتی۔
جبکہ ڈاکٹر غلام فرید کہتے ہیں کہ دنیا بھربچوں کی اتنی اموات جنگوں سے نہیں ہوتی کہ جتنے بچے غیر معیاری پانی پینے سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔اس پانی سے معدہ اور پیٹ کے متعدد امراض لاحق ہو تے ہیں بڑے افراد کی نسبت ان بیماریوں سے بوڑھے اور بچے جلد نڈھال ہو جاتے ہیں اور ہلاک ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ نہ صرف لاہور بلکہ ملک بھر میں ہسپتالوں اور کلینکوں پر سب سے زیادہ مریض پیٹ اور معدہ کے امراض کا شکار آتے ہیں اور ان کی وجہ جہاں پرناخالص خوراک اور دیگر عوامل ہیں وہاں پینے کا غیر معیاری پانی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔
شفیق آباد کے رہائشی محمد اکرم سے جب اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ میرے چھ سالہ بچے کو ڈائریا کا مرض ہو گیا جب میں نے ڈاکٹر کو دکھایا تو انھوں نے بیماری کا سبب غیر معیاری پانی بتایا کیونکہ ہم اپنے بچے کو ماں کا دودھ دینے کی بجائے خشک دودھ بوتل کے پانی میں حل کر کے دیتے تھے اور اس کے معیاری یا غیر معیاری کا ہمین پتہ نہیں تھالہذا داکٹر نے نمکول یا ابلے ہوئے پانی میں نمک اور چینی کی مناسب مقدار شامل کرنے کو بتایااور دوائی بھی دی مگر بیماری بڑھ چکی تھی جس وجہ سے میرا بیٹا ہلاک ہو گیا۔جبکہ عبد القدوس نے بتایا کہ بازار میں فروخت ہونے والی متعدد اداروں کی بوتلوں پر تاریخ تیاری کا اندراج نہیں ہوتا جبکہ اسکے استعمال کی مدت چند ماہ یا سال درج ہوتی ہے جس وجہ سے اس کے ایکسپائر ہونے کی تاریخ کا تعین نہیں ہو سکتا اس طرح بعض ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پانی پر بھی تیاری کی تاریخ درج نہیں ہوتی جبکہ اس کے اپنے ملک سے چلنے اور یہاں کی مارکیٹ تک پہنچنے میں کافی عرصہ گزر جاتا ہے اس طرح ایکسپائر پانی بھی مارکیٹ میں بکتا رہتا ہے جبکہ ان بوتلوں کی بھر مار کی وجہ سے پولیشن مین اجافہ ہورہا ہے اور نالوں اور گٹروں میں جمع ہو جانے سے گندے پانی کی نکاسی رک جاتی ہے۔
لاہور کی سیر کیلئے آسٹریا کی ٹورسٹ سیلیا نامی خاتون نے پینے کے پانی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے ملک میں اگرچہ پیک واٹر فروخت ہوتا ہے مگر بہت کم افرادخصوصاً امیر لوگ یہ پانی استعمال کرتے ہیں جبکہ اکثریت سرکاری ٹینکوں اور نلکوں کا پانی پینے کے لیے استعمال کرتے ہیں کیونکہ ہمارے متعلقہ اداروں کا چیک رکھنے کی وجہ سے وہاں غیر معیاری پانی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے بتایا کیونکہ سفر میں سب سے زیادہ ضروری چیز پانی ہوتی ہے اور ان علاقوں میں ہمارا زیادہ خرچہ بھی پانی کی مد میں ہوتا ہے مگر ہمارے ملک کے علاوہ ہالینڈ جاپان اور دیگر یورپی ممالک میں دیواروں اور ٹرینوں اور دیگر نمایاں جگہوں پر سرکاری ٹینکوں پر لکھا ہوتا ہے کہ یہ پینے کا معیاری پانی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ جدید طریقوں سے وہاں پر ہر ہفتہ پانی کے ٹینکوں کی صفائی کی جاتی ہے۔

No comments:

Post a Comment