January 24, 2011

بلوچستان کی معدنی دولت کانیلام عام

Volume 2, Issue 4
Part 2

اس ضمن میں ایک نکتہ جو نہایت اہمیت کا حامل ہے وہ ریکوڈک یا سیندک پروجیکٹس کیلئے ملکی یا بین الاقوامی مائننگ کمپنیوں سے اربوں ڈالر اور اربوں روپے کا حصول ہے کوئی بھی مائننگ کمپنی یا عالمی مالیاتی ادارہ یا بینک کسی بھی صوبائی حکومت کی گارنٹی کو نہیں مانتے اور مرکزی حکومت یعنی حکومت پاکستان کی گارنٹی طلب کرتے ہیں تو ایسی صورت میں ان میگاپروجیکٹس پرسرمایہ کاری کیلئے قرض حاصل کرنا ہو تو صوبائی حکومتیں بے دست و پا ہوجاتی ہیں۔ اصل قوت یا اصل طاقت اور مرکزی کردار حکومت پاکستان کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ یوں کہئے کہ ریکوڈک کی قسمت کی چابی وفاقی حکومت کے ہاتھ میں ہے۔موجودہ وزیر اعلی بلوچستان خود اس بات کا ٹیلی ویڑن پر اقرار کرچکے ہیں کہ ان کی بات فنانس اور پلاننگ ڈویڑن کے سیکرٹری نہیں مانتے اور بلوچستان کے ملازمین کی تنخواہوں کے لئے انہیں اسلام آباد کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔ایسی صوبائی حکومت جو اپنے سرکای ملازمین کو ماہانہ تنخواہ دینے سے قاصر ہے وہ کس طرح اربوں اور کھربوں روپے یا ڈالر ریکوڈک جیسے میگا پروجیکٹ کے لئے مہیاکرسکتی ہے۔
ان حالات میں بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں کی ایک فوج ظفر موج، یعنی خودساختہ ماہرین، بہروپیے، کرتب دکھانے والے جادوگر بلوچستان کو یہ باور کرانے یا گمراہ کرانے میں کوششوں میں مصروف ہیں کہ سیندک ہو یا ریکوڈک، ایسے پروجیکٹس کو حکومت بلوچستان خود فنانس کرسکتی ہے اور چلاسکتی ہے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس نوع کی مائننگ اور مشینری ہمارے اپنے ملک میں تیار کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ان خودساختہ افلاطونوں کو کون سمجھائے کہ ہمارے ملک میں 2.2 کے وی کا جنریٹر نہیں بنتا تو ریکوڈک اورسیندک کی مشینری کہاں بن سکے گی۔ جب ہم مشینری اورآلات کی بات کرتے ہیں تو یعنی ہمارے ذہن میں پاکستان اسٹیل ملز اور ایچ ایم سی ٹیکسلا کا نام آتا ہے۔ تو اس سلسلے میں نہایت ایمانداری اور ذمہ داری کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ سیندک S-Ball Mill میں ہمیں اسٹیل بالزکی ضرورت تھی ہم ایچ ایم سی ٹیکسلا کے ماہرین کی ایک ٹیم سیندک لے کرگئے اور ان کو چینیوں سے تمام ڈرائنگ، ڈیزائن اور دیگر مطلوبہ نقشے لیکر دے دیئے۔ مگر ایچ ایم سی کے بنائے ہوئے اسٹیل بالز ایک دن بھی نہیں چل سکے اور ایچ ایم سی نے خود اسٹیل بال تیار کرنے سے معذرت کرلی۔ اس طرح ہمیں چین سے یہ اسٹیل بالز درآمد کرنے پڑے حکومت بلوچستان خودساختہ ماہرین کے ایسے مشوروں سے محتاط رہیں ورنہ سیندک اور ریکوڈک جیسے منصوبے بھی تہس نہس ہوکر رہ جائیں گے۔
میری مذکورہ بالا گزارشات کے بعد میں بصد احترام پوری ذمہ داری اور حقیقت پسندی کے ساتھ یہ کہنا چاہوں گا کہ اندرون خانہ ایم سی سی چین اور ٹی سی سی یعنی چلّی اور کینیڈین کنسورشیم کے درمیان رسہ کشی بلکہ زندگی اور موت کا کھیل کھیلا جارہا ہے اور یہ بھی کسی اچھنبے کی بات نہیں کہ دونوں کمپنیاں صوبائی اور مرکزی سطح پر تمام جائز اور ناجائز ہتھکنڈے استعمال کررہی ہیں جس میں مرکزی اور صوبائی حکومت کے زعمائ، مختلف پرائیویٹ لابی و گروپ کمپنیوں کے ٹاپ لیول کے پروفیشنلزاور حکومتی سطح پر سفارت کار اور سفیر بھی اس میگا پروجیکٹ کو حاصل کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔ چین جو یقیناً پاکستان کا بہترین بہی خواہ اور ہمدرد برادر ملک ہے اور پاکستان میں کئی کارہائے نمایاں انجام دے چکا ہے اور بلوچستان کے تناظر میں چینی کمپنی ایم سی سی سیندک کا کاپر گولڈ پروجیکٹ دس سال چلانے کے بعد مزید دس سال تک چلانے کی خواہاں ہے۔ اسی طرح لسبیلہ کے لیڈ اور زنک پروجیکٹس پر بھی چینی کمپنی کام کررہی ہے اور گوادر پورٹ بھی حکومت چین کی ہی وجہ سے پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اس پس منظر میں چین ریکوڈک پر، جو سیندک سے صرف سو میل پہلے نوکنڈی میں واقع ہے،کام کرنے کو اپنا پہلا حق سمجھتا ہے اور وہ ہر قیمت پر اس پروجیکٹ پرچین کی بالادستی کا خواہاں ہے۔
دوسری طرف ٹی سی سی جو چلّی اور کینیڈاکا جوائنٹ کنسورشیم ہے۔ٹی سی سی ریکوڈک پر سیندک کی طرز پر مائن، کنسٹریٹر، سمیٹر اور ریفائنری لگانا چاہتی ہے جس میں تمام مائننگ میلنگ ، کنسٹریٹر اور ریفائنری کے علاوہ مائن اور ملازمین کی رہائشی کالونیاں وغیرہ تمام شامل ہیں۔ اس کے لئے اسے لیزنگ رائٹس کی ضرورت ہے اور معروضی حالات بھی اس بات کے متقاضی ہیں۔یہاں یہ بات ضروری ہے کہ وفاقی حکومت اور حکومت بلوچستان یک طرفہ فیصلہ کرنے سے پہلے تمام ملکی اور غیرملکی ماہرین کو جو بذات خود اس کا علم رکھتے ہوں اور ذاتی تجربات اور مشاہدات پر مبنی رپورٹس تیار کراکر ان کی پیشہ ورانہ رائے اور سفارشات کی روشنی میں اس عظیم پروجیکٹ کی قسمت کا فیصلہ کریں جس سے سب سے پہلے بلوچستان کے لوگوں کی حق تلفی نہ ہو اور اس کے بعد پاکستان بھی اس پروجیکٹ سے فائدہ اٹھا سکے۔اگر حکومت پاکستان ان Base Metals سے سنجیدگی سے فائدہ اٹھائے اور قومی مفاد میں ان کی مائننگ کرے تو پاکستان بھی بھارت کی طرح ایک انڈسٹریل پاور بن سکتا ہے۔ پاکستان ریکوڈک اور سیندک ذخائر کا خود استعمال کرے اور بیرونی مداکلت کو شامل نہ ہونے دے تاکہ پاکستان کو ان ذخائر کا کچھ فائدہ ہو۔
 

No comments:

Post a Comment