January 24, 2011

بجلی کے ساتھ غذائی بحران کی بھی پاکستان آمد

Volume 2, Issue 4

جرمنی میں مقیم ممتاز پاکستانی بزنس مین اور توانائی کے ماہر طارق محمود اعوان سے بات چیت

آپ طویل عرصے سے جرمنی میں قیام پذیر ہیں۔ آپ جرمنی کو توانائی کے حوالے سے کیسے دیکھتے ہیں؟
جرمنی زراعت اور متبادل توانائی کے حوالے سے جدید ملک ہے جہاں بجلی کئی طریقوں سے حاصل کی جاتی ہے۔ یہاں کسی بھی علاقے میں چلے جائیں تو ونڈ مل کے بڑے بڑے یونٹ دکھائی دیں گے۔ مجھے جرمنی میں رہتے ہوئے 18 سال ہو گئے ہیں لیکن یہاں کبھی ایک لمحے کیلئے بھی بجلی بند نہیں ہوئی۔ اسکے باوجود جرمنی مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کےلئے متبادل توانائی کے ذرائع پر خصوصی توجہ دیتا ہے اور بہت سے تحقیقاتی ادارے، یونیورسٹیاں اور سائنسدان توانائی کے شعبے میں جدید تحقیق کرتے رہتے ہیں۔ ونڈ مل کے علاوہ جرمنی سولر انرجی پر بھی خصوصی توجہ دے رہا ہے اور نہ صرف سرکاری بلکہ نجی کمپنیاں بھی بجلی پیدا کرکے مختلف شہروں کی متعلقہ انتظامیہ کو دیتی ہیں، جو یہ بجلی خرید کر اسے اپنے شہریوں کو مہیا کرتی ہے۔
پاکستان میں جاری توانائی کے بحران سے کیسے نمٹا جاسکتا ہے اور اس بحران کے نتیجے میں یورپی بزنس مین کو کس طرح کی مشکلات درپیش ہوتی ہیں؟
پاکستانی عوام کو موسم گرما میں حکومتی نااہلی کے باعث دوزخ کا سامنا ہوتا ہے جس کا واحد حل آئندہ پچاس سال کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر مختلف ذرائع سے بجلی کا حصول ہونا چاہئے۔ پاکستان میں جہاں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے وہیں بجلی کے منصوبوں کو کاغذوں کے بجائے عملی طور پر کامیاب بنانا ہوگا، جبکہ بجلی کے بحران کے باعث غذائی بحران بھی پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے جو مستقبل میں قحط کی صورت میں سامنے آئےگا۔ پاکستان میں بجلی کی قلت کے باعث صنعتیں بند ہو رہی ہیں جسکی وجہ سے نہ صرف لاکھوں افراد بیروزگار ہو گئے ہیں بلکہ برآمدات میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے اور پاکستانی برآمدکنندگان یورپی ممالک کو مطلوبہ وقت پر مال سپلائی کرنے میں تاخیر کا سبب بن گئے ہیں۔ اس صورتحال سے پاکستان کی ساکھ ب ±ری طرح متاثر ہورہی ہے اور یورپی بزنس مین پاکستان کو نظرانداز کرکے بھارت سمیت خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تجارتی روابط بڑھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ یورپ میں کوالٹی کے علاوہ کسی چیز کی بروقت فراہمی بھی انتہائی اہمیت رکھتی ہے اور اگر کوئی ملک وقت پر آرڈر پورا کرنے میں ناکام ہو جائے تو یورپی بزنس مین اس ملک سے دوبارہ معاہدہ نہیں کرتے۔ پاکستان میں بہت سارے مسائل کا سبب ناقص حکومتی منصوبہ بندی، پیشہ وارانہ افراد کی کمی اور حکومت کی قومی منصوبوں میں عدم دلچسپی ہے۔ پڑوسی ممالک یورپی مارکیٹ کو قابو میں لانے کےلئے سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں اور اس ضمن میں چین اور بھارت سرفہرست ہیں، لیکن بدقسمتی سے پاکستانی برآمدات بڑھنے کے بجائے کم ہورہی ہیں، کیونکہ اگر بجلی نہیں ہوگی تو کوئی بھی کمپنی نہ اپنی پیداوار بڑھاسکتی ہے اور نہ ہی متعلقہ ممالک کو بروقت برآمد کرسکتی ہے۔
کیا آپ کبھی جرمن سرمایہ کاروں کو پاکستان میں توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے راغب کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟
ہم جرمنی میں رہتے ہوئے بھی اپنے وطن کی ترقی اور بہتر امیج کیلئے اپنی تمام صلاحتیوں اور تعلقات کو بروئے کار لاتے ہیں۔ پاکستان میں ہونےوالے تمام منفی اقدامات کا بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں پر بہت زیادہ اثر ہوتا ہے اور ہمیں اس بات کا بھی دکھ ہے کہ ہمارا ملک بہت سے شعبوں میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے کی صلاحیت موجود کے باوجود بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ ہم جرمن سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے نہ صرف راغب کرتے ہیں بلکہ عملی طور پر انکی مدد اور رہنمائی بھی کرتے ہیں لیکن ہماری تمام کوششیں اس وقت ناکام ثابت ہوتی ہیں جب پاکستانی حکومت کے متعلقہ عہدیدار ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرتے۔
میں نے ذاتی طور پر ونڈ مل کے حوالے سے بہت کام کیا اور ایک جرمن وفد بھی پاکستان لے کر آیا جس نے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے نامزد نمائندے خواجہ حسام کے علاوہ وفاقی وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف، وزیر مملکت سینیٹر وقار احمد، بورڈ آف انوسٹمنٹ کے ڈائریکٹرز اور دیگر اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے ملاقات کی لیکن عملاً ان ملاقاتوں کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا۔
ونڈ مل کے معاملے میں پاکستانی حکومت کی سرد مہری کے باعث میں نے دوسری بار سولر انرجی کے شعبے میں بھی عملی اقدامات کیلئے کوشش کی اور ذاتی طور پر دو مرتبہ پاکستان آیا، لیکن پنجاب، سندھ اور وفاقی حکومت کا رویہ ایک ہی جیسا رہا۔ اگرچہ بعض مواقع پر حکومتی عہدیداروں نے کہا کہ وہ ہر ممکن تعاون کرنے کو تیار ہیں لیکن عملاً کچھ بھی نہیں کیا گیا۔
آپ جس وفد کی قیادت کررہے تھے اس میں کتنے افراد شامل تھے اور کیا بات جرمن سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری سے روکتی ہے؟
جب میں وفد لےکر پاکستان جارہا تھا تو اس سے دو دن قبل پشاور میں بم دھماکہ ہو گیا اور پھر اگلے ہی روز لاہور میں بھی اسی طرح کا دھماکہ ہوا چنانچہ کچھ جرمن سرمایہ کاروں نے پاکستان جانے سے انکار کردیا، لیکن جو لوگ گئے وہ بھی مایوسی کا شکار ہوئے۔ ایک اور بات جو جرمن سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری سے روکتی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کے مختلف سیاسی رہنماءجرمنی سمیت متعدد یورپی ممالک میں اپنا کاروبار کررہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں جرمنی کے لوگ یہی کہتے ہیں کہ آپ کے اپنے حکمران یہاں سرمایہ کاری کررہے ہیں کیونکہ وہ پاکستان کو محفوظ ملک نہیں سمجھتے تو پھر ایسی صورت میں ہم پاکستان میں کیسے کاروبار شروع کرسکتے ہیں؟
یورپ میں پاکستانی سفارتخانوں کی کارکردگی کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
اکثر پاکستانی سفارتخانوں کے پاس کسی بھی شعبے کے بارے میں مکمل معلومات موجود نہیں ہوتیں۔ اگر براہ راست پاکستان میں کسی سے رابطہ کیاجائے تو عموماً ”مک مکاﺅ” کی بات کی جاتی ہے، اور ایسی صورت میں سفارتخانہ بھی کچھ نہیں کرسکتا۔ چنانچہ سب سے پہلے پاکستان میں ”مک مکاﺅ” پالیسی کا خاتمہ ضروری ہے تاکہ بیرونی سرمایہ کار پاکستان کا ر ±خ کرسکیں۔ ایک اور اہم بات آپ کو بتاتا چلوں کہ نومبر 2009ءکے آخر میں جب وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی یہاں تشریف لائے تو ایئر پورٹ پر ان کا استقبال کرنے کےلئے جرمن حکومت کا کوئی بھی اعلیٰ عہدیدار موجود نہیں تھا البتہ برلن میں پاکستانی سفیر اور دیگر سفارتی عملے نے ان کا استقبال کیا۔
پاک جرمن سفارتی تعلقات کے پچاس سال پورے ہوچکے ہیں لیکن دونوں ممالک باہمی تعلقات کے حوالے سے مطمئن نہیں ہیں۔ اگر کوئی غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں اپنا کاروبار شروع کرنا چاہے تو اسے تقریباً 32 این او سی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ سب کچھ ون ونڈو آپریشن کے ذریعے نہیں بلکہ کئی دفاتر کے بارہا چکر لگانے کے بعد ہوتا ہے، نتیجتاً غیر ملکی سرمایہ کار اس ذلت سے بچنے کیلئے کسی دوسرے ملک کا ر ±خ کرلیتے ہیں۔
آپ نے پاکستانی حکام کو توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد کیلئے کس طرح کی پیشکش کی تھی؟
پاکستانی معیشت کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے 2009ءمیں زراعت کے حوالے سے ایک مناسب پیکج کی بات کی تھی، کیونکہ پاکستان میں بجلی کا بحران سب سے زیادہ صنعت و زراعت پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔ ہم نے چھوٹے کسانوں کےلئے تقریباً 10 لاکھ روپے میں ایسا ٹیوب ویل لگانے کی پیشکش کی تھی جو سورج سے توانائی حاصل کریگااور سارا دن چلتا رہے گا۔ یہ منصوبہ پنجاب اور سندھ میں کامیابی سے چل سکتا ہے اور اگر حکومت پنجاب صوبے بھر میں ایسے پانچ یا دس ہزار ٹیوب ویل لگا لے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غذائی پیداوار میں کتنا اضافہ ہوگا۔
آپ کے خیال میں وہ کون سے مسائل ہیں جنہیں حل کرنے سے غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کی طرف مائل ہوسکتے ہیں؟
پاکستان میں فائل کو ایک سے دوسرے شخص تک جانے میں کئی ہفتے صرف ہوجاتے ہیں۔ اس طرح وقت کا ضیاع ہوتا ہے اور کوئی بھی سرمایہ کار ایسا نہیں جو صرف ایک منصوبے کیلئے مہینوں سرکاری دفاتر میں دھکے کھاتا رہے۔ جرمنی میں اگر کوئی کمپنی بجلی پیدا کرنا چاہے تو حکومت اسے نہ صرف 60 فیصد تک مالی معاونت کی پیشکش کرتی ہے بلکہ مختلف قسم کی مشینری بھی فراہم کرتی ہے۔ یہ تمام سہولتیں جرمنی میں ایک عام کیلئے ہیں جبکہ پاکستان میں اس طرح کا موقع ایک بڑے سرمایہ کار کو بھی میسر نہیں ہوتا۔
پاکستان میں توانائی کے بحران میں بیورو کریسی کے کردار اور حکومتی حکمت عملی کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
جہاں تک بیورو کریسی کا تعلق ہے تو اس سے صرف میں نہیں بلکہ پاکستان میں رہنے والے مقامی بزنس مین بھی سخت مایوس ہوچکے ہیں۔ سولر انرجی کے حوالے سے پاکستان میں بے پناہ وسائل موجود ہیں جنہیں استعمال میں لاکر توانائی کے بحران سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے کیونکہ یہاں سال بھر سورج بھرپور آب و تاب کے ساتھ چمکتا ہے جس سے بڑی مقدار میں بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ حکومت اس ذریعے کو استعمال میں لاکر ملک کے ہر گھر میں نہ صرف بجلی پہنچا سکتی ہے بلکہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے دعوﺅں کو بھی سچ ثابت کرسکتی ہے۔ اسکے علاوہ پاکستان میں سکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے بھی مزید اقدامات کئے جائیں کیونکہ جب تک آپ خود محفوظ نہیں ہونگے تب تک غیر ملکی سرمایہ کاروں کو تحفظ کی ضمانت کیسے دے سکتے ہیں؟
 

No comments:

Post a Comment