January 31, 2011

بالائی جینیات اورخلیاتی یادداشت

 محمد صبیح انور

کسی بھی جاندار میں جینز کا ایک مرقّع موجود ہوتا ہے جوہر خلیے مرکزے میں دھاری دار کروموسوم کے اندارسمویا ہوتا ہے۔ یہی جینز اس جاندار کی مکمل شناخت ہوتے ہیں اور جاندار کے حلیے، شخصیت، ساخت اور دیگر تمام خواص کے لئے لوحِ محفوظ کا درجہ رکھتے ہیں۔ جینز میں تبدیلی رونما ہو تو جاندار کی خاصیتیں بدل جاتی ہیں۔ سن2000ءمیں اِنسانی جینز کے مجموعے یعنی جینوم کی مکمل تحلیل کر لی گئی جِس کے نتیجے میں اِنسانی جینیات پر تحقیق، طِب اور علم الادویہ میں نِت نئی دریافتوں کے دروازے کھل گئے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کے شعبہ حیاتیات سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرمحمد طارق کا جنیات اور خلیات کے حوالے سے کہنا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ دو مماثل جڑواں بچے، جو بہ اعتبارِ جینوم مکمل طور پر یکساں ہیں، انکی طبائع، عادات واطوار، بولنے اور چلنے پھرنے کے اندازایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں؟ مثال کے طور پرجڑواں بھائیوں کو مختلف مرض کیوں لاحق ہوتے ہیں؟ حالتِ طیش میں اِن بھائیوں کا رویہ ایک دوسرے سے جدا کیوں ہوتا ہے؟ ممکن ہے ایک بھائی صحت مند اور دوسرا لاغرو نحیف ہو۔ جینیاتی یکسانیت کے باوجود آخریہ تفاوت کیوں؟ اِس سے ظاہر ہوتا ہے جینیات اِنسان کی ظاہری حالت متعین کرنے میں مختارِکل نہیں، بلکہ بالائی جینوم کا ایک متوازی نظام بھی موجود ہے جو انسان کی ظاہری حالت متعین کرنے میں ایک نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ انسان اور دیگر تمام جانداروں میں ڈی این اے نام کا سالمہ موجود ہوتا ہے۔ جینز بھی اِسی سالمے پر موجود ہوتی ہیں۔ ڈی این اے گونہایت طویل سالمہ ہوتا ہے مگر مرکزے میں یہ ڈور کے پِنے کی طرح گتھم گتھا ہوتا ہے جِس کی وجہ سے اس کا حجم کم ہو جاتا ہے۔ ڈی این اے خاص قسم کی لحمیات پر پھرکی کے اوپر دھاگے کی طرح لِپٹاہوتا ہے۔ یہ لحمیات ہسٹون کہلاتی ہیں۔ اب یہ ہسٹون ہی ہیں جو جینز کے اظہار یا عدم اظہار کا موجب بنتی ہیں۔ ہسٹون میں کیمیائی تغیرات رونما ہوں توجینز بھی متاثر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر آنکھ اور دِل ہی کو لے لیں۔ آنکھ کے پردہِ روشن کے خلاور دِل کے پٹھوں کے خلیے جینیاتی اعتبار سے بعینہ مماثل ہیں۔ اِن میں ذرہ بھر فرق نہیں۔ مگر آخر کیا وجہ ہے کہ پردہِ روشن کے خلیے نوراور رنگ کے نتیجے میں برانگیختہ ہوتے ہیں اور دِل کے خلیوں کامقدر یہ ٹھہر چکاہے کہ، جب تک سانس میں سانس ہے، وہ دھڑکتے ہی رہیں گے۔ اِس فرق کا تعین ہسٹون کے وہ کیمیائی مرکبات کرتے ہیں جن کے مجموعے اور ترتیب کو بالائی جینیات کانظام کہا جاتا ہے۔ بالائی جینیوم گویا جینز کے اظہار یا سکوت کی چابی ہے۔ آنکھ کے خلیوں میں دھڑکنے کے جینز خاموش ہیں اور دِل کے خلیوں روشنی سے مستنیر ہونے کی صلاحیت نہیں۔ اِسی طرح ڈاکٹر طارق بالائی جینیات کی باریک تفصیلات کھول کھول کر بیان کرتے رہے اور حاضرین قدرت کی صّناعیوں پر سر دھنتے رہے۔
ہرخلیے کی ایک یادداشت بھی ہوتی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اِنسانی زندگی کی ابتدا ماں کے پیٹ میں ایک خلیے سے ہوتی ہے جوتقسیم درتقسیم کے عمل سے گزرتا ہوا، کروڑہا خلیوں میں نمودار ہوتا، بالآخر ایک انسانی ہئیت میں ظہور پذیر ہوتا ہے جِس میں سر، بازو، آنکھ، کان اور دیگر اعضائے جسمانی کی تخصیص نظرآتی ہے۔ ڈاکٹر طارق نے واضح کیا کہ خلیاتی تقسیم کے بالکل ابتدائی ادوار میں خلیوں میں یہ تعین کر دیا جاتا ہے کہ کون سے خلیات نے آگے چل کر آنکھ کا روپ دھارنا ہے، کِن خلیات نے دِل بنانا ہے، اور کون سے خلیے مستقبل میں جِگر میں شامل ہوجائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ اگرچہ تخصیص کا عمل بعد میں ظاہر ہوتا ہے مگر تعین کے نتیجے میں ہر خلیے کا مستقبل اور مقدر واضح ہو جاتا ہے۔ گویا جانداروں کی حیاتیاتی نشوونما میں بالائی جینیات مرکزی اور کلیدی مقام کا حامِل ہے۔ مرزا غالب نے تو حافظے کے چِھن جانے کی دعا مانگی تھی-
یادِ ماضی عذاب ہے یارب چِھین لے مجھ سے حافظہ میرا ۔۔۔۔ مگر خلیے اپنا حافظہ کھو بیٹھیں اور اپنا مخصوص کردار جو بالائی جینیاتی نظام نے وضع کر رکھاہے، فراموش کردیں تو کینسر جیسے سنگین نتائج روپذیر ہو سکتے ہیں۔
کہ بالائی جینیاتی نظام پر تجرباتی تحقیق ایک بظاہر حقیر جانور، یعنی مکھی کی مرہونِ منت ہے۔ سائنسدان موصوف نے اپنے حیران کن تجربات کی طرف بھی اشارہ کیا جِس میں مکھیوں کو ایک نہایت مربوط طریقے سے پال کر، ان کے بالائی جینیاتی منشور میں کیمیائی اجزا کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ اِس طرح مکھی کی جسمانی اور ظاہری شکل و صورت میں نِت نئی اور محیّر العقول تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پرمکھی کی آنکھوں کارنگ بالائی جینیاتی تغیرکے ذریعے بدلا جا سکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment