January 31, 2011

پاکستان میں تحقیق کا فقدان

مختار آزاد
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بنے والی مہلک گیسوں کے اخراج کا ذمہ دار نہیں، تاہم اس عالمی ماحولیاتی مسئلےکےباعث ملکی معیشت کو سنگین خطرات کا سامنا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کے باوجود موسمیاتی تغیرات کےتناظر میں پیدا شدہ اور ممکنہ ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے ملک میں سائنسی سطح پر تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستان میں موسمیاتی تغیر ات کےسبب جو شعبے متاثر ہورہے ہیں۔ ان کے بارے میں سرکاری سطح پر اعتراف کیا گیا ہے کہ زراعت، جنگلات، ماہی گیری اور سب سےزیادہ خطرات آبی وسائل کو درپیش ہیں۔ یہ اعتراف اس سال جنوری کے وسط میں اسلام آباد میں موسمیاتی تغیرات کے بارے میں عالمی سطح پر منعقدہ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے کیا تھا۔
ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تغیرات کا نشانہ بننے والے جن شعبوں کی نشاندہی کی جاچکی ہے ان کے تدارک کے لیے ملک میں سائنسی بنیادوں پر تحقیق کا فقدان ہے۔ جس کی وجہ سےاندیشہ ہے کہ آئندہ آنے والے برسوں کے دوران پاکستان میں سنگین ماحولیاتی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔
پاکستانی معیشت میں زراعت، ماہی گیری اور جنگلات سے پیدا ہونے والی مصنوعات پر ملک کی اکثریتی آبادی کا معاشی انحصار ہے۔ جبکہ ملک کی آبی ضروریات کا بڑا حصہ دریائے سندہ سے پورا ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیرات کا شکار دریائے سندھ بھی ہوسکتا ہے جس کا سبب گلیشیروں کے پگھلنے کے باعث پہلے سیلاب اور پھر دریا میں پانی خطرناک کم ہو کر ملکی آبادی اور معیشت، دونوں کو تباہی سے دوچار کرسکتا ہے۔
پاکستان میں تحقیق صرف پی ایچ ڈی ڈگری کے حصول اور سائنسی مقالوں کی اشاعت تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ملکی خدمت اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تحقیق اور معاشرتی مسائل کو باہم مربوط کر کے معاشرے کو یہ باور نہ کروادیا جائے کہ اگر نجی شعبے نے تحقیق میں سرمایہ کاری کی تو اس سےبراہ راست فائدہ معاشرے کو ہوسکتا ہے۔ اس وقت تحقیق اور معاشرے کے درمیان یہ ربط مفقود ہے۔ جس کی وجہ سے تحقیق کے شعبے میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔
جامعہ کراچی میں برسوں تدریس سےوابستہ رہنے والے ماہرِ ماحولیات رفیع الحق کا کہنا ہے کہ ’اب تک ہم اس بات کا اِدراک نہیں کر پائے ہیں کہ معاشی اور ماحولیاتی مسائل کے خاتمے کے لیے سائنسی بنیادوں پر ایسی تحقیق کی ضرورت ہے، جس سے معاشرے کو درپیش مسائل کا حل نکل سکتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں تحقیق صرف پی ایچ ڈی ڈگری کے حصول اور سائنسی مقالوں کی اشاعت تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ جس سے محققین کی ذات کو فائدہ ضرور ہوتا ہے لیکن ملکی خدمت اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تحقیق اور معاشرتی مسائل کو باہم مربوط کر کے معاشرے کو یہ باور نہ کروادیا جائے کہ اگر نجی شعبے نے تحقیق میں سرمایہ کاری کی تو اس سے براہ راست فائدہ معاشرے کو ہوسکتا ہے۔ اس وقت تحقیق اور معاشرے کے درمیان یہ ربط مفقود ہے۔ جس کی وجہ سے تحقیق کے شعبے میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔‘
ہائر ایجوکیشن کمیشن، پاکستان کے مطابق اس وقت سولہ کروڑ کی آبادی والے پاکستان میں 2008 تک پی ایچ ڈی ڈگری کے حامل محققین کی تعداد صرف پانچ ہزار، گیارہ ہے۔ کمیشن کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق ’عددی اعتبار سے پاکستان میں پی ایچ ڈی ڈگری کی سطح پرمحققین کی سطح شرمناک حد تک کم ہے، لیکن اس سے بھی ب ±ری بات یہ ہے کہ مجوعی سطح پر ملک میں سائنسی بنیادوں پر تحقیق بھی بہت محدود ہے۔ اس وقت جو تحقیق ہورہی ہے، اس کا زیادہ تر حصہ نجی شعبے کے تحت کام کرنےوالی چند صنعتوں تک محدود ہے، جس میں تجارتی بنیادوں پر مارکیٹنگ اصولوں پر مبنی تحقیق کا ایک خاص ہدف ہوتا ہے۔ مجموعی ملکی مسائل کے حوالے سے اس وقت ان تمام شعبوں میں تحقیق کی ضرورت ہے جو موسمیاتی تغیرات کا نشانہ بن رہے ہیں۔‘یاد رہے کہ 1947ءمیں قیامِ پاکستان کے وقت، اس وقت کے پاکستان میں موجود جامعات سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے محققین کی تعداد صرف دو تھی۔
تحقیق کا دامن روایتی، مگر معاشی اعتبار سے ریڑھ کی ہڈی کے مترادف پیداواری شعبوں میں ہی تنگ نہیں۔ انفورمیشن ٹیکنولوجی میں بھی ملکی سطح پر تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن، پاکستان کے مطابق 05-2004 میں صرف 72 طلبا و طالبات نے کمپیوٹر سائنس اور انفورمیشن ٹیکنولوجی کے شعبے میں بطور پی ایچ ڈی طالب علم انرولمنٹ کروایا۔ جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اعلیٰ سطح پر تحقیق کر کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے پاکستان اس جدید ٹیکنولوجی کے شعبے میں بھی دنیا کے دوسرے ممالک پر انحصار کررہا ہے۔ جس کے سبب تحقیق بھی اب درآمدی کنزیومر پراڈکٹ بن گئی ہے۔
عددی اعتبار سے پاکستان میں پی ایچ ڈی ڈگری کی سطح پرمحققین کی سطح شرمناک حد تک کم ہے، لیکن اس سے بھی ب ±ری بات یہ ہے کہ مجوعی سطح پر ملک میں سائنسی بنیادوں پر تحقیق بھی بہت محدود ہے۔ اس وقت جو تحقیق ہورہی ہے، اس کا زیادہ تر حصہ نجی شعبے کے تحت کام کرنےوالی چند صنعتوں تک محدود ہے، جس میں تجارتی بنیادوں پر مارکیٹنگ اصولوں پر مبنی تحقیق کا ایک خاص ہدف ہوتا ہے۔ مجموعی ملکی مسائل کے حوالے سے اس وقت ان تمام شعبوں میں تحقیق کی ضرورت ہے جو موسمیاتی تغیرات کا نشانہ بن رہے ہیں
پاکستان میں موسمیاتی تغیرات کی ماہر صفیہ شفیق کا کہنا ہے کہ ملک کو آئندہ برسوں میں موسمیاتی تغیرات کے باعث سنگین ماحولیاتی مسائل کا سامنا کرنا ہوگا۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور نجی شعبہ بڑے پیمانے پر زراعت، سمندری وسائل اور پانی کے شعبے میں تحقیق پر سرمایہ کاری کرے، مگر افسوس ایسا نہیں ہو رہا۔ اس وقت ملک میں ماحولیاتی مسائل کےحوالے سے کام کرنے والی عالمی اور ملکی سطح کی بعض ایسی این جی اوز بھی موجود ہیں جو تحقیق کی علمبردار ہیں، لیکن خود ان کے پاس پی ایچ ڈی سطح کے ماہرین کی استعداد موجود نہیں۔
وفاقی وزارتِ ماحولیات، پاکستان کے ایک اعلیٰ افسر عبدالمناف کا کہنا ہے کہ حکومت اس وقت موسمیاتی تغیرات کا سامنا کرنے کے لیے متعدد اقدامات کررہی ہے، جو اقوامِ متحدہ کے رہنما خطوط اور کیے گئے معاہدات کے عین مطابق ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ اس خطرے کا سامنا کرنے کے لیے ملک میں جس سطح پر تحقیق ہونی چاہیے، وہ نہیں ہورہی ہے۔،
ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ سائنسی تحقیق کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈ کی کمی بھی اس فقدان کا سبب ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی، پاکستان سے وابستہ ماہرِ آب ڈاکٹر عبدالمجید کے مطابق اگر آبی وسائل اور اس سے مستفید ہونےوالے شعبوں مثلاً زراعت، ماہی گیری وغیرہ پر، توجہ نہ دی گئی تو آنے والے برسوں میں قلتِ آب کے سبب ملکی معیشت ہی نہیں نجی شعبے میں قائم صنعتوں کو بھی سنگین پیداواری نقصان کا سامنا ہوسکتا ہے۔ جس سے ملک میں غربت کی شرح میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس لیے ضرورت ہے کہ سائنسی شعبے میں تحقیق پر سرمایہ کاری کی جائے جس کے لیے فنڈز فراہم کرنا ہوں گے۔

No comments:

Post a Comment