January 31, 2011

وہ حساب آج چکا دیا۔۔۔


کسان لٹ رہا ہے، کہیں معیاری بیج کی عدم دستیابی کے ہاتھوں اور کہیں ناقص کھاد کے ہاتھوں، کہیں بے کار زرعی ادویات اس کا گلہ گھونٹ رہی ہیں تو کہیں پانی کی کمیابی اسے مار ڈال رہی ہے، جو اگر ان سب سے بچ جائے (گرچہ بچنے کا امکان ہی نہیں ہے) تو آڑھتی اور سرمایہ دار اس کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔
غلہ منڈیوں میں فروخت ہونے والی اجناس پر ساڑھے تین فیصد ودہولڈنگ ٹیکس لگا کر کسان کی خمیدہ کمر کو مزید جھکنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ زرعی ٹیوب ویل پر دی جانے والی سبسڈی واپس لے کر اسکے منہ سے آخری نوالہ تک چھیننے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ بوائی سے لےکر فصل تک اور فصل سے لیکر کٹائی و فروخت تک کسان اپنا بال بال قرضے میں باندھ چکا ہوتا ہے۔ 
ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک کے پچھتر فیصد کسان قرضے کے بوجھ تلے دبتے چلے جارہے ہیں۔ لیکن اربابِ حکومت خاموش تماشائی بنے کسان کی تباہی کا منظر اپنے ایوانوں میں بیٹھے دیکھ رہے ہیں۔ کسان کی تباہی کی ذمہ داری بیج فراہم کرنے والی کمپنیز سے کھاد اور کیڑے مار ادویات فراہم کرنے والے اداروں تک اور منڈیوں میں بیٹھے سرمایہ داروں اور ان سب کی سرپرستی کرنے والی حکومت تک ہر ایک پر عائد ہوتی ہے۔
آج زرعی ٹیوب ویل سے ایک ایکڑ زمین سیراب کرنے میں لگ بھگ پندرہ سو کا خرچ آتا ہے، اول تو بیس بائیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کے سبب ٹیوب ویل چلانا ہی ممکن نہیں رہا ہے اور اگر بجلی آبھی جائے تو زرعی ٹیوب ویل پر دی جانے والی سبسڈی ختم کرکے ٹیوب ویل چلانا کسان کی قوت برداشت سے باہر کردیا گیا ہے۔ دریائی پانی پر انحصار محکمہ آبپاشی پر روپے پاشی کرنا یا پھر اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ ہر موگھے پر اسی (80) سے ایک لاکھ تک ریٹ مقرر ہیں جو کسان رشوت دینے کی استطاعت نہیں رکھتے ان کا پانی کاٹ کر رشوت دینے والوں کو دے دیا جاتا ہے۔
معیاری بیچ نہ ملنے کے باعث کسان کی فصل آدھی رہ جاتی ہے اور رہی سہی کسر کھاد کی عدم دستیابی پوری کردیتی ہے۔ اصل اور معیاری کیڑے مار ادویات اس قدر مہنگی ہیں کہ کسان کی قوت خرید سے باہر ہی رہتی ہیں۔ کسان اپنی فصل کی قربانی دے دیتا ہے پر ان ادویات کو خریدنے کی سکت نہیں رکھتا ہے۔ کسان کی مشکل یہاں پر ختم نہیں ہوتی ہے، فصل تیار ہونے کے بعد آڑھتی اپنی مرضی کے مطابق فصل کی قیمت اسقدر گرا دیتے ہیں کہ کسان کی اصل محنت تو ایک طرف اس کی فصل کا خرچ بھی پورا نہیں ہوتا ہے۔ 
حکومت کو چاہئے کہ وہ کسان کو اس کی محنت کا صلہ دینے کےلئے جامع منصوبہ بندی کرے۔ کسان کو معیاری کھاد، بیج اور کیڑے مار ادویات کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ مڈل مین کے کردار کو نکال کر براہ راست کسان کو اس کی محنت کا جائز معاوضہ دیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا توکہیں اپنے حصے کا حساب چکانے والا یہ کسان تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق راست قدم اٹھانے پر مجبور نہ ہوجائے۔

No comments:

Post a Comment