عوام آئے دن کے مسائل میں اسطرح الجھی ہوئی ہے کہ سلجھن کی کوئی صورت ہی نظر نہیں آتی ہے۔ وہ مسائل جن کا واحد حل ٹیکنولوجی کا مثبت و موئثر استعمال ہے ان کے حل کےلئے سیاسی و غیر موئثر طریقے استعمال کئے جارہے ہیں۔ ایک زمانے تک لوڈشیڈنگ صرف بجلی تک محدود تھی لیکن اب گیس کی لوڈشیڈنگ نے زندگی اجیرن کردی ہے۔
صنعتی و تجارتی صارفین تو ایک طرف گھریلو صارفین بھی گیس کی عدم دستیابی اور لوڈشیڈنگ کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ موسمِ سرما کی آمد کے ساتھ ملک کے سرد علاقوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ شروع ہوگئی تھی جو آہستہ آہستہ شدیدتر ہوتی جارہی ہے۔
حکومتی سوچ بچار کے ماہرین (تھنک ٹینک) نے خیال کیا کہ صنعتی و تجارتی صارفین کو گیس کی سپلائی معطل کردی جائے تو گھریلو صارفین کو گیس فراہم کی جاسکتی ہے، لیکن ان کی یہ ترکیب کارگر ثابت نہیں ہوئی بلکہ الٹا گھریلو صارف باالفاظِ دیگر عوام کی مشکلات میں اضافہ کردیا۔
صنعتی صارف کی گیس بند ہونے سے ایک طرف پیداوار متاثر ہوئی اور ملک کو روزآنہ اربوں روپوں کا نقصان ہورہا ہے تو دوسری طرف صنعتوں کے بند ہونے سے صنعتوں میں کام کرنے والے افراد کی زندگی براہِ راست متاثر ہورہی ہے۔ نیز پیداوار میں کمی کے باعث اشیاءبھی بازار سے ناپید ہوتی جارہی ہیں جو طلب و رسد کے فارمولے کے تحت ان کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا سبب بن رہی ہے۔
تجارتی صارفین میں کثیر تعداد سی این جی استعمال کرنے والوں کی ہے۔ پہلے تو حکومت نے سی این جی کو عام کرنے کےلئے مراعات دیں اور پھر جب پاکستان سی این جی استعمال کرنے والی گاڑیوں کے ممالک کی فہرست میں صفِ اول پر آگیا تو اربابِ اختیار کو خیال آیا کہ ہم گیس کی قلت کا شکار ہورہے ہیں۔ یعنی پہلے میٹھی گولی کا عادی بنایا اور پھر چھین لی۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں اس وقت پچیس لاکھ سے زائد سی این جی سے چلنے والی گاڑیاں اور تین ہزار کے لگ بھگ سی این جی اسٹیشنز ہیں۔ اس صورتحال میں جب ایک دن کےلئے سی این جی کی ترسیل معطل کی جاتی ہے تو بیچنے والوں کوتقریباً 290 ملین روپے یومیہ کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے، جس کو اگر ماہانہ بنیادوں پر شمار کیا جائے تو تقریباً 1.16 بلین روپے سے زائد کا نقصان ہورہا ہے، جس سے ظاہر ہے کہ حکومت کو اربوں روپے کے ٹیکسز کا نقصان ہورہا ہے۔ یہ تو صرف ایک دن کے اعدادو شمار ہیں اب جبکہ ملک میں دو دن سی این جی کی تعطیل کی جارہی ہے تو صورتحال مزید دگرگوں دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں بس یہی خیال آتا ہے کہ
کس کس کو یاد کیجئے کس کس کو روئیے
آرام بڑی چیز ہے منہ ڈھک کے سوئیے
صنعتی و تجارتی صارفین تو ایک طرف گھریلو صارفین بھی گیس کی عدم دستیابی اور لوڈشیڈنگ کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ موسمِ سرما کی آمد کے ساتھ ملک کے سرد علاقوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ شروع ہوگئی تھی جو آہستہ آہستہ شدیدتر ہوتی جارہی ہے۔
حکومتی سوچ بچار کے ماہرین (تھنک ٹینک) نے خیال کیا کہ صنعتی و تجارتی صارفین کو گیس کی سپلائی معطل کردی جائے تو گھریلو صارفین کو گیس فراہم کی جاسکتی ہے، لیکن ان کی یہ ترکیب کارگر ثابت نہیں ہوئی بلکہ الٹا گھریلو صارف باالفاظِ دیگر عوام کی مشکلات میں اضافہ کردیا۔
صنعتی صارف کی گیس بند ہونے سے ایک طرف پیداوار متاثر ہوئی اور ملک کو روزآنہ اربوں روپوں کا نقصان ہورہا ہے تو دوسری طرف صنعتوں کے بند ہونے سے صنعتوں میں کام کرنے والے افراد کی زندگی براہِ راست متاثر ہورہی ہے۔ نیز پیداوار میں کمی کے باعث اشیاءبھی بازار سے ناپید ہوتی جارہی ہیں جو طلب و رسد کے فارمولے کے تحت ان کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا سبب بن رہی ہے۔
تجارتی صارفین میں کثیر تعداد سی این جی استعمال کرنے والوں کی ہے۔ پہلے تو حکومت نے سی این جی کو عام کرنے کےلئے مراعات دیں اور پھر جب پاکستان سی این جی استعمال کرنے والی گاڑیوں کے ممالک کی فہرست میں صفِ اول پر آگیا تو اربابِ اختیار کو خیال آیا کہ ہم گیس کی قلت کا شکار ہورہے ہیں۔ یعنی پہلے میٹھی گولی کا عادی بنایا اور پھر چھین لی۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں اس وقت پچیس لاکھ سے زائد سی این جی سے چلنے والی گاڑیاں اور تین ہزار کے لگ بھگ سی این جی اسٹیشنز ہیں۔ اس صورتحال میں جب ایک دن کےلئے سی این جی کی ترسیل معطل کی جاتی ہے تو بیچنے والوں کوتقریباً 290 ملین روپے یومیہ کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے، جس کو اگر ماہانہ بنیادوں پر شمار کیا جائے تو تقریباً 1.16 بلین روپے سے زائد کا نقصان ہورہا ہے، جس سے ظاہر ہے کہ حکومت کو اربوں روپے کے ٹیکسز کا نقصان ہورہا ہے۔ یہ تو صرف ایک دن کے اعدادو شمار ہیں اب جبکہ ملک میں دو دن سی این جی کی تعطیل کی جارہی ہے تو صورتحال مزید دگرگوں دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں بس یہی خیال آتا ہے کہ
کس کس کو یاد کیجئے کس کس کو روئیے
آرام بڑی چیز ہے منہ ڈھک کے سوئیے
No comments:
Post a Comment