Volume 2, Issue 3
مختلف بنکوں کی جانب سے عوام کی سہولت کے پیش نظر اور خریداری کیلئے جاری کئے جانے والے کریڈٹ کارڈوں پر”ہیکروں”نے انٹرنیٹ کے ذریعے وسیع پیمانے پر فراڈ شروع کر دیا اور لوگوں کے کریڈٹ کارڈوں سے لاکھوں روپے کی خریداری کر ڈالی جس کا کریڈٹ کارڈ ہولڈروں کو بھی علم نہ ہوسکا جبکہ کریڈٹ کارڈ سسٹم کوہیکروں سے محفوظ بنانے کیلئے الیکڑونک کرائم یونٹ اور سائبر کرائم ونگ جیسے سرکاری ادارے بھی کوئی مناسب اقدامات نہ کرسکے جس بنا پر فراڈیے ہیکر مسلسل لوگوں سے فراڈ کرنے میں مصروف ہیں تفصیلات کے مطابق جب یورپ میں ہر شعبہ زندگی میں کمپیوٹر کا استعمال شروع ہوا اور خریداری بھی انٹر نیٹ کے ذریعہ شروع ہوئی تو رقم کی ادائیگی کے لئے کریڈٹ کارڈ کا نظام متعارف کرایا گیا جس میںبنکوں سے جاری کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ بنکوں کی منظور شدہ دکانوں اور شاپنگ سنٹروں سے ضروریات زندگی کی اشیاءخرید کر نقد رقم کی بجائے کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ ادئیگی کر دی جاتی ہے یہ نظام چونکہ سہل تھا اور رقم بھی کیش کی بجائے ایک کارڈ کی صورت میں محفوظ رہتی تھی چنانچہ عوام الناس نے اپنی رقوم کو اپنی جیبوںکی نسبت کریڈٹ کارڈ میں محفوظ جانتے ہوئے زیادہ سے زیادہ اپنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ نظام دنیا کے تمام ممالک میں پھیل گیا جب پاکستان میں کچھ عرصہ قبل کمپیوٹر ٹیکنولوجی آئی تو مختلف کاروباری اداروں اور بنکوں کے باہمی تعاون سے نقد ادائیگی کی بجائے کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگی کا طریق کار پاکستان میں بھی مقبول ہونا شروع ہو گیا اور ساتھ ہی انٹر نیٹ کی آمد سے آن لائن خریداری کا عمل بھی شروع ہو گیا چنانچہ ایسے میں بعض پڑھے لکھے اور کمپیوٹر ٹیکنو لوجی کو سمجھنے والے فراڈیوں نے لوگوں کے کریڈٹ کارڈز پر خریداری شروع کرکے لوگوں کو لاکھوں روپے سے محروم کرنا شروع کردیا مگر اس کے باوجود کریڈٹ کارڈ سسٹم گلوبل نظام ہونے کی وجہ سے مسلسل ترقی پر ہے جبکہ فراڈ کے باوجود لاکھوں افر اد نقد رقوم کی ادئیگی پر خریداری کرنے کی بجائے کریڈ ٹ کارڈ کے ذریے رقوم کی ادائیگی کو ترجیح دیتے ہیں صرف لاہور میں 4000ہزار سے زائید

بنک آفیسر نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کریڈٹ کارڈ کا نظام اگرچہ رسکی ہے مگر پھر بھی بنک اپنے کلائنٹوں کے مفادات کو محفوظ رکھتا ہے اور ہم ان کے ہونے والے نقصان کو پورا کرتے ہیں انھوں نے کہا کہ کریڈٹ کارڈ کا نظام بین الاقوامی اداروں ماسٹر کارڈ انٹر نیشنل اور ویزا کارڈ انٹر نیشنل کے زیر انتطام چلتا ہے اور اگر کسی کلائینٹ نے انٹر نیٹ کے ذریعے خریداری نہیں کی ہوتی اور کسی منظور شدہ مرچنٹ تک ہی محدود رہتا ہے تو ایسی صورت میں یہ دونوں ادارے کسی بھی قسم کا ہونے والا نقصان پورا کرتے ہیں لیکن اگر انٹر نیٹ کے ذریعے خریداری کی گئی ہو تو اس کو ٹریس کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ البتہ اگر اس سلسلہ میں متعلقہ ادارہ یا مر چنٹ تعاون کرے تو پھر سراغ لگانا ممکن ہوتا ہے انھوں نے کہا کہ اگرچہ مرچنٹ مشینوں سے خریداری کرنے پر بھی فراڈ ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے مگر انٹر نیٹ کے ذریعے خریداری کرنے پر فراد کا زیادہ اندیشہ ہوتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ 2سے5فیصد افراد کی ابھی تک شکایات موصول ہوچکی ہیں اور ہم شکایت ہونے کی صورت میں 10سے15دن کے اندر تحقیق مکمل کرلیتے ہیںانھوں نے ایک سوال کے جواب پر بتایا کہ ایسے فراڈکی صورت میں ہم کسی سرکاری ادارے کوشکایت درج نہیں کراتے بلکہ اس کی اطلاع ماسٹر کارڈ انٹر نیشنل اور ویزا کارڈ انٹر نیشنل کو دیتے ہیں جو اس نقصان کو پورا کر دیتے ہیںکیونکہ ان اداروں کے ساتھ ایک معاہدہ کے تحت ہم یعنی بنک اور کلائینٹ کا سرمایہ محفوظ ہوتا ہے اور نقصان کی صورت میں یہ پورا کر تے ہیں۔
کریڈٹ کارڈ دو اقسام کے ہوتے ہیں جن میں سے ایک ماسٹر کارڈ اور دوسرا ویزا کارڈ کہلاتا ہے۔ ماسٹر کارڈ پر بنک ماہانہ2.33فیصدکے حساب سے مارک اپ وصول کرتا ہے لیکن اگر کارڈ ہولڈر 45دنوں میں رقم واپس کر دیں تو کوئی مارک اپ نہیں لیا جاتا اور پھر جتنے دن گزرتے جاتے ہیں اتنے ہی دنوں کے حساب سے مارک اپ وصول کیا جاتا ہے جبکہ ویزا کارڈ پر بنک ماہانہ2.75کے حساب سے مارک اپ وصول کرتا ہے اور اس میں 51دن کی مہلت ہوتی ہے کہ اگر اس دوران رقم کی ادائیگی کر دی جائے تو پھر مارک اپ وصول نہیں کیا جاتا اور جتنے دن زیادہ ہو جائے اتنے ہی دنوں کے حسا ب سے مارک اپ لیا جاتا ہے۔یہ کسی بھی بنک کی طرف سے جاری ہونے کے بعد کسی بھی بنک کی طرف سے نصب مرچنٹ مشین یا انٹر نیٹ پر ادائیگی ممکن ہوتی ہے یہ کارڈ اپنی گلوبل حیثیت رکھتے ہیں اور دنیا میںہر جگہ قبول کیے جاتے ہیں۔یورپ سے خریدے گئے کارڈ کو لاہور میں استعمال کیا جا سکتا ہے اور لاہور سے خریدے ہوئے کارڈ پریورپ میں خریداری ہو سکتی ہے۔کریڈٹ کارڈ بنوانے کے لئے کسی بنک کا اکاونٹ ہولڈر ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا کوئی بھی شخص اپنی مالی حیثیت کے مطابق یہ کارڈ لے سکتا ہے پاکستان میں ان کی کم از کم مالیت 25000روپے اور زیادہ سے زیادہ مالیت1,50,000روپے تک کی ہے۔
انٹر نیٹ ہیکروں نے کریڈٹ کارڈ وں کے فراڈ کے ذریعے اب تک بڑے بین الاقوامی اور قومی بنکوں جیسے سٹینڈرڈ چارٹر بنک ، سٹی بنک ، یونین بنک ، عسکری بنک امریکن بنک ، مسلم کمرشل بنک اور دیگر بنکوں کو بھاری نقصان پہنچایا ہے ان میں سے صرف تین بنکوں کو اب تک 30ملین روپے سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے ان ہیکروں میں بورے والہ کا رہائشی عبد الغنی بھی شامل ہے جسکا اصل نام محمد سہیل ہے اور اس کی ملائیشا کی شہریت بھی ہے اس کے گروہ مین تین سنگا پور کے افراد بھی شامل ہیں جنکے نام مارکوس لی ، ٹومی لم اور ایڈی چن ہیں جبکہ انڈونیشیا کا بھی باشندہ ان کے گروہ میں شامل ہے اس گینگ کے امریکہ اور برطانیہ میں بھی رابطے ہیں یہ گروہ اب کروڑوں روپے کا فراڈ کر چکا ہے۔ اس گروہ کا نکشاف اس وقت ہوا جب ایک سرکاری ادرے نے چاندنی چوک راولپنڈی کے واقع جان موٹرز کے شو روم پر چھاپہ مارا جو جہلم کے رہنے والے خالد محمود کا ملکتی تھا۔ ادارے کے اہلکاروں کو یہاں سے سیکڑوں جعلی کریڈٹ کارڈ ملے تھے۔ یہ کارڈ سنگا پور اور ملائیشیا میں چھپتے ہیں اور یہ بالکل اصلی اور اعلیٰ معیار کے ہوتے ہیں جن کو غیر ملکی اور دیگر افراد وہاں سے خرید کر پاکستان میں لاتے ہیں اور ان پر دل کھول کر مہنگی خریداری کرتے ہیں جن میں زیادہ تر جیولری شامل ہوتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت 30سے زائد پاکستانی شہری بیرون ممالک خصوصاً امریکہ میں کریڈٹ کارڈوں کے فراڈ میں گرفتار ہیں۔یہ جرائم اتنے سائینسی بنیادوں پر ہوتے ہیں کہ ان کو ثابت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اب کریڈٹ کارڈ فراڈ دنیا بھر کے لئے ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے اور اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی ابھی تک اس کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔ اس جرم کی کہانی زیادہ پرانی نہیں ہے انٹر نیٹ متعارف ہوتے ہی یہ جرم بھی معرض وجود میں آگیا تھا اور اس نوعیت کے جرائم میں اب یہ سرفہرست ہے۔ماسٹر کارڈ انٹر نیشنل کے مطابق کریڈٹ کارڈ جرائم کی شرح بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے1995کی نسبت اب اس میں 369فیصد کا اضافہ ہو چکا ہے۔2001میں دنیا بھر میں کریڈٹ کارڈوں کے ذریعے61.8بلین ڈالر کی خریداری ہوئی جبکہ700ملین ڈالر فراڈ کی نذر ہو گئے۔
ایف آئی اے لاہورآفس میں قائم سائبر کرائم ونگ کے انچارج ڈپٹی ڈائریکڑ جاوید شاہ نے بتایا کہ لاہور آفس ابھی تک کریڈٹ کارڈ فراڈ یا دیگرسائبر کرائم سے متعلق کوئی درخواست نہیں وصول ہوئی جب بھی کسی شہری نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بارے میں درخواست دی تو اس پر یقیناً کاروائی کی جائے۔ایک سوال کے جواب پر انھوں نے بتایا کہ میرے علم کے مطابق اب تک صرف دو کیس رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔
No comments:
Post a Comment