January 17, 2011

بلوچستان کی معدنی دولت کانیلام عام




 Volume 2, Issue 3
محمد یعقوب بزنجو

سابق منیجنگ ڈائریکٹر سیندک کاپر اینڈ گولڈ پروجیکٹ بلوچستان پاکستان کا وسیع ترین ، سب سے کم انسانی آبادی اور تمام دیگر صوبوں سے کم ترقی یافتہ اور پسماندہ ترین صوبہ ہے۔ سائنس اور ٹیکنولوجی کے اعتبار سے کسی شمار میں نہیں آتا اور معاشی طور پر مفلوک الحال اور مفلس ترین صوبہ ہے۔ بلوچستان کے حساس محل وقوع کی وجہ سے اٹھارہویں صدی یعنی انگریزوں کے دور حکومت سے لیکر آج تک بین الاقوامی طاقتیں یعنی امریکا، روس، انگلستان ،چین کے علاوہ ایران ، ہندوستان اور افغانستان جیسے پڑوسی ملک بھی اپنے مفادات کے باعث اس خطے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔دوسرے اہم ترین عوامل میں بلوچستان کا طویل ساحل سمندر، تیل و گیس کے ذخائر اورزیر زمین معدنیات جن میں سونا، چاندی، لیڈ، زنک، لوہا جیسی اہم دھاتیں شامل ہیں جس کی بنا پر وہ ممالک صنعتی طاقت اور خوشحال ترین ملک بن سکتے ہیں۔ بلوچستان کے انہی معدنی وسائل پر یورپ، امریکا اور بعض ایشیائی ممالک کی نظریں اس خطے پر جمی ہوئی ہیں۔
سیندک کا سونے اور تانبے کا منصوبہ ، لسبیلہ کا لیڈ اور زنک، اور ریکوڈک کے سونے اور تانبے کا پروجیکٹ نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ لیکن اس نوع کے میگاپروجیکٹ کی ابتدا اس وقت ممکن ہے کہ ان کی مالی ضروریات جو اربوں ڈالر میں ہوتی ہیں وہ پوری کی جائیں اس کے علاوہ ایسے منصوبوں کیلئے مشینری اور آلات کے ساتھ ساتھ اس پر کام کرنے والے ماہرین اور کارکنوں کی ضرورت بھی پڑتی ہے تب جاکر ایسے پروجیکٹس کی ابتدا کی جاسکتی ہے۔ ملٹی بلین مائننگ کمپنی اور بڑے مالیاتی ادارے ہماری معاشی حالت اور ہماری صلاحیتوں کا بخوبی علم رکھتے ہیں۔ چنانچہ ہماری ان مجبوریوں کی بنا پر جب ایسے پروجیکٹ پر وہ کام کی ابتدا کرتے ہیں تو ہمیں کمزور ترین فریق سمجھ کر اپنی طے شدہ اور من مانی شرائط پر ہم سے کھربوں ڈالر کماکر ہمیں چند کروڑ ڈالر دیکر ہماری اس معدنی دولت کو لوٹ کر لے جاتے ہیں۔
اس ضمن میں سوئی گیس کے ذخائر جو 1952ءمیں دریافت ہوگئے تھے، جس سے برٹش پٹرولیم نے فائدہ اٹھایا، سیندک پروجیکٹ دس سال کیلئے لیز پر چینی کمپنی ایم سی سی اور لیڈ اینڈ زنک پروجیکٹ بھی چین کی کمپنی ایم سی سی کو دیدیا گیا۔حال ہی میں ریکو ڈک منصوبے پر بھی میڈیا میں بحث چل رہی ہے۔ یہ پروجیکٹس ہماری مجبوریوں کی بہترین مثالیں ہیں۔ اگر ہم سوئی گیس کی مثال لیں تو یہ سوئی گیس پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا حتیٰ کہ کوہ ہمالیہ کے دامن یعنی مری تک پہنچ گئی۔ پورے ملک میں گھریلو استعمال کیلئے گیس، پنجاب میں کارخانوں، یوریا کھاد کے کارخانوں کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں گیس سے چلنے والے پاور ہاو ¿س قائم کئے گئے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر سوئی گیس کے ذخائر نہ ہوتے تو پاکستان توانائی کے اعتبار سے کب کا ڈوب گیا ہوتا۔ لیکن ستم تو یہ ہے کہ سوئی گیس جو جنرل ضیاءالحق کے زمانے تک کوئٹہ پہنچی اور گنتی کے چند قصبے گردونواح میں واقع ہونے کی بنا پر گیس سے مستفید ہوسکے۔ بلوچستان کی 99 فیصد آبادی اس معدنی دولت سے محروم ہے جس کے ذخائر بلوچستان میں پائے جاتے ہیں۔اس عمل کا قدرتی ردعمل یہ ہوا کہ ایک طرف بلوچستان سے تعلق رکھنے والے قومی، صوبائی اسمبلی اور سینیٹ ممبران نے صدائے احتجاج بلند کیا تو دوسری طرف بلوچستان کے نوجوان اور تعلیم یافتہ نسل نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر سوئی گیس سے اہل بلوچستان کی مالی اور معاشرتی حالت نہیں سدھرتی تو انہوں نے بندوق کا سہارا لینا شروع کیا جس سے آج بلوچستان کے طول وعرض میں قتل و غارت گری روزمرہ کا معمول بن گئی ہے۔
دھاتی کان کنی کا پہلا منصوبہ سیندک کا پر اینڈ گولڈ پروجیکٹ ہے ،جیالوجیکل سروے آف پاکستان نے ان ذخائر کا 1962ءمیں پتہ لگایا تھا۔ بیس سال تک ڈانوں ڈول رہنے کے بعد بھٹو صاحب کے زمانے میں اس منصوبے پر کام شروع ہوا۔ 1990ءمیں ایم سی سی چین اور سیندک میٹلرز کے درمیان معاہدہ طے پایا اور یہ بلوچستان کا پہلا پروجیکٹ ہے جو 1992ءسے 1996ءیعنی چار سال کے وقت مقررہ پر پایہ تکمیل کو پہنچا۔انٹرنیشنل بڈنگ کے بعد اس کی پیداوار یعنی سونا، چاندی بین الاقوامی مارکیٹ میں بیچاگیا جس سے حکومتپاکستان کو 35 کروڑ روپے ملے۔ اس پروجیکٹ کا ورکنگ کیپٹل ڈیڑھ ارب تھا۔پرویز مشرف کے دور میں نہایت آسان شرائط پر یہ پروجیکٹ چینی کمپنی ایم سی سی کو دس سال کی لیز پر دیدیا گیا۔ 1996ءمیں تخمینہ لگایا گیا تھا کہ اگر سونا دس گرام1000 روپیہ تک بک جائے تو یہ پروجیکٹ قابل عمل پروجیکٹ ہوگا۔ اب جبکہ 14 سال گزر چکے ہیں اور سونے کے دس گرام کی قیمت چالیس ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے تو اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت پاکستان کو کتنے ارب روپے کا نقصان ہوا جبکہ حکومت بلوچستان کو رائلٹی کے طور پر چند لاکھ ڈالر خیرات کے طور پر ملے ہیں۔
بلوچستان کے علاقے ریکوڈک میں سونے اور تانبے کا ذخیرہ جو دنیا کے چند عظیم ذخائر میں سے ایک ہے اور ایک کھرب ڈالر کے اس عظیم پروجیکٹ پر کئی بین الاقوامی مائننگ کمپنیوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ ریکو ڈک کے یہ ذخائر وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اور بین الاقوامی مائننگ کمپنیوں کے درمیان حل طلب مسئلہ بن کر اخبارات کی شہ سرخیوں اور ٹی وی چینلز پر بحث ومباحثے کا موضوع بنی ہوئی ہیں۔ حکومت پاکستان اور حکومت بلوچستان کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اہل بلوچستان اس بات کے منتظر ہیں کہ اربوں ڈالر کا یہ قومی اثاثہ بھی سوئی گیس، سیندک اور لسبیلہ کے لیڈ اور زنک پروجیکٹ کی طرح کوڑیوں کے دام نیلام عام ہوگا یا ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتیں اس عظیم قومی دولت کو پاکستان اور بلوچستان کے عوام کی ترقی اور خوشحالی کا ذریعہ بنائیں گی۔
یہ طے شدہ بات ہے کہ بین الاقوامی کمپنیاں نہایت بے رحمی سے اور شاطرانہ انداز میں اس قومی دولت کو ہڑپ کرنے کی ناپاک کوشش کریں گی اور ہر طرف رشوت کے طور پر ڈالروں کی بارش ہوگی۔
ریکوڈک جو سیندک سے پہلے نوکنڈی کے کوہ دلیل میں واقع ہے اس منصوبے پر ابتدائی کام آسٹریلیا کی ایک شہرہ آفاق مائننگ کمپنی بی ایچ پی کو جام یوسف کے دور اقتدار میں ملا جس کے تحت حکومت بلوچستان کو 25 فیصد حصص کی بنیاد پر کمپنی کو کام شروع کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس زمانے میں بین الاقوامی دھات مارکیٹ میں Recession تھی اور آسٹریلیا کی اکثر کانیں بند ہوگئی تھیں چنانچہ انہوں نے نہایت ہی آسان شرائط پر ریکوڈک پر کام شروع کردیا تھا اور اس کے ابتدائی تلاش اور کھوج پر تقریباً 230 ملین ڈالر خرچ کئے تھے اور اس کی ابتدائی فیزیبلٹی رپورٹ بھی تیار کرلی تھی۔بعد ازاں بین الاقوامی منڈی میں سونے اور چاندی کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں اور آسٹریلین کمپنی بی ایچ پی نے چلّی اور کینیڈا کے ایک جوائنٹ کنسورشیم یعنی ٹھٹھہیاں کوپر کمپنی کو 230 ملین ڈالر کی ادائیگی کردی۔اس طرح ٹی سی سی ریکوڈک کی مالک بن گئی اور تاحال یہ کمپنی بھی ریکوڈک پر 200 ملین ڈالر خرچ کرنے کی دعویدار ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے آئین کے مطابق سونا، چاندی، لیڈ و زنک، لوہا، یورینیم، تیل اورگیس پاکستان کی وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں جنہیں کوئی صوبائی حکومت کسی ایک فرد کو نہیں دے سکتی۔ دوسری طرف میٹل بیسز کی لیزنگ اتھارٹی کے حقوق صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ مرکزی حکومت کسی صوبائی حکومت کی مرضی اور منشا کے خلاف یہ پروجیکٹ سائیٹ کسی کمپنی کو لیز نہیں کرسکتی۔
اس ضمن میں ایک نکتہ جو نہایت اہمیت کا حامل ہے وہ ریکوڈک یا سیندک پروجیکٹس کیلئے ملکی یا بین الاقوامی مائننگ کمپنیوں سے اربوں ڈالر اور اربوں روپے کا حصول ہے کوئی بھی مائننگ کمپنی یا عالمی مالیاتی ادارہ یا بینک کسی بھی صوبائی حکومت کی گارنٹی کو نہیں مانتے اور مرکزی حکومت یعنی حکومت پاکستان کی گارنٹی طلب کرتے ہیں تو ایسی صورت میں ان میگاپروجیکٹس پرسرمایہ کاری کیلئے قرض حاصل کرنا ہو تو صوبائی حکومتیں بے دست و پا ہوجاتی ہیں۔ اصل قوت یا اصل طاقت اور مرکزی کردار حکومت پاکستان کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ یوں کہئے کہ ریکوڈک کی قسمت کی چابی وفاقی حکومت کے ہاتھ میں ہے۔موجودہ وزیر اعلی بلوچستان خود اس بات کا ٹیلی ویڑن پر اقرار کرچکے ہیں کہ ان کی بات فنانس اور پلاننگ ڈویڑن کے سیکرٹری نہیں مانتے اور بلوچستان کے ملازمین کی تنخواہوں کے لئے انہیں اسلام آباد کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔ایسی صوبائی حکومت جو اپنے سرکای ملازمین کو ماہانہ تنخواہ دینے سے قاصر ہے وہ کس طرح اربوں اور کھربوں روپے یا ڈالر ریکوڈک جیسے میگا پروجیکٹ کے لئے مہیاکرسکتی ہے۔لطف کی بات یہ ہے صوبہ بلوچستان اور مرکزی حکومت پر بھی پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔
ان حالات میں بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں کی ایک فوج ظفر موج، یعنی خودساختہ ماہرین، بہروپیے، کرتب دکھانے والے جادوگر بلوچستان کے وزیر اعلی کو یہ باور کرانے یا گمراہ کرانے میں کوششوں میں مصروف ہیں کہ سیندک ہو یا ریکوڈک، ایسے پروجیکٹس کو حکومت بلوچستان خود فنانس کرسکتی ہے اور چلاسکتی ہے۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس نوع کی مائننگ اور مشینری ہمارے اپنے ملک میں تیار کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ان خودساختہ افلاطونوں کو کون سمجھائے کہ ہمارے ملک میں 2.2 کے وی کا جنریٹر نہیں بنتا تو ریکوڈک اورسیندک کی مشینری کہاں بن سکے گی۔ جب ہم مشینری اورآلات کی بات کرتے ہیں تو یعنی ہمارے ذہن میں پاکستان اسٹیل ملز اور ایچ ایم سی ٹیکسلا کا نام آتا ہے۔ تو اس سلسلے میں نہایت ایمانداری اور ذمہ داری کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ سیندک S-Ball Mill میں ہمیں اسٹیل بالزکی ضرورت تھی ہم ایچ ایم سی ٹیکسلا کے ماہرین کی ایک ٹیم سیندک لے کرگئے اور ان کو چینیوں سے تمام ڈرائنگ، ڈیزائن اور دیگر مطلوبہ نقشے لیکر دے دیئے۔ مگر ایچ ایم سی کے بنائے ہوئے اسٹیل بالز ایک دن بھی نہیں چل سکے اور ایچ ایم سی نے خود اسٹیل بال تیار کرنے سے معذرت کرلی۔ اس طرح ہمیں چین سے یہ اسٹیل بالز درآمد کرنے پڑے۔محترم وزیر اعلی بلوچستان سے ہم دست بستہ عرض کرتے ہیں کہ وہ خودساختہ ماہرین کے ایسے مشوروں سے محتاط رہیں ورنہ سیندک اور ریکوڈک جیسے منصوبے بھی تہس نہس ہوکر رہ جائیں گے۔
محترم شاہین صہبائی اور میری مذکورہ بالا گزارشات کے بعد میں بصد احترام پوری ذمہ داری اور حقیقت پسندی کے ساتھ یہ کہنا چاہوں گا کہ اندرون خانہ ایم سی سی چین اور ٹی سی سی یعنی چلّی اور کینیڈین کنسورشیم کے درمیان رسہ کشی بلکہ زندگی اور موت کا کھیل کھیلا جارہا ہے اور یہ بھی کسی اچھنبے کی بات نہیں کہ دونوں کمپنیاں صوبائی اور مرکزی سطح پر تمام جائز اور ناجائز ہتھکنڈے استعمال کررہی ہیں جس میں مرکزی اور صوبائی حکومت کے زعمائ ، مختلف پرائیویٹ لابی و گروپ کمپنیوں کے ٹاپ لیول کے پروفیشنلزاور حکومتی سطح پر سفارت کار اور سفیر بھی اس میگا پروجیکٹ کو حاصل کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔ چین جو یقیناً پاکستان کا بہترین بہی خواہ اور ہمدرد برادر ملک ہے اور پاکستان میں کئی کارہائے نمایاں انجام دے چکا ہے اور بلوچستان کے تناظر میں چینی کمپنی ایم سی سی سیندک کا کاپر گولڈ پروجیکٹ دس سال چلانے کے بعد مزید دس سال تک چلانے کی خواہاں ہے۔ اسی طرح لسبیلہ کے لیڈ اور زنک پروجیکٹس پر بھی چینی کمپنی کام کررہی ہے اور گوادر پورٹ بھی حکومت چین کی ہی وجہ سے پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اس پس منظر میں چین ریکوڈک پر، جو سیندک سے صرف سو میل پہلے نوکنڈی میں واقع ہے،کام کرنے کو اپنا پہلا حق سمجھتا ہے اور وہ ہر قیمت پر اس پروجیکٹ پرچین کی بالادستی کا خواہاں ہے۔
دوسری طرف ٹی سی سی جو چلّی اور کینیڈاکا جوائنٹ کنسورشیم ہے۔ٹی سی سی ریکوڈک پر سیندک کی طرز پر مائن، کنسٹریٹر، سمیٹر اور ریفائنری لگانا چاہتی ہے جس میں تمام مائننگ میلنگ ، کنسٹریٹر اور ریفائنری کے علاوہ مائن اور ملازمین کی رہائشی کالونیاں وغیرہ تمام شامل ہیں۔ اس کے لئے اسے لیزنگ رائٹس کی ضرورت ہے اور معروضی حالات بھی اس بات کے متقاضی ہیں۔یہاں یہ بات ضروری ہے کہ وفاقی حکومت اور حکومت بلوچستان یک طرفہ فیصلہ کرنے سے پہلے تمام ملکی اور غیرملکی ماہرین کو جو بذات خود اس کا علم رکھتے ہوں اور ذاتی تجربات اور مشاہدات پر مبنی رپورٹس تیار کراکر ان کی پیشہ ورانہ رائے اور سفارشات کی روشنی میں اس عظیم پروجیکٹ کی قسمت کا فیصلہ کریں جس سے سب سے پہلے بلوچستان کے لوگوں کی حق تلفی نہ ہو اور اس کے بعد پاکستان بھی اس پروجیکٹ سے فائدہ اٹھا سکے۔اگر حکومت پاکستان ان Base Metals سے سنجیدگی سے فائدہ اٹھائے اور قومی مفاد میں ان کی مائننگ کرے تو پاکستان بھی بھارت کی طرح ایک انڈسٹریل پاور بن سکتا ہے۔
 

No comments:

Post a Comment