June 20, 2011

داڑھی سے بڑی مونچھیں


داڑھی سے بڑی مونچھیںاس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کسی بھی ادارے کو چلانے کے لئے ایک نظام کی ضرورت ہوتی ہے اور اس نظام کو رائج کرنے یا چلانے کے لئے افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ افراد جتنے اچھے منتظم ہوں گے ادارہ اتنا ہی اچھا چلے گا۔ یہاں پر بات عدد کی نہیں ہے، یہاں پر بات خاصیت کی ہے۔ یہ نہیں کہا جاتا کہ جتنے زیادہ افراد ہوں گے ادارہ اتنا اچھا چلے گا، یہ کہا جاتا ہے کہ جتنے اچھے منتظم ہوں گے ادارہ اتنا اچھا چلے گا۔

حال ہی میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ کسانوں کی آگاہی اور ان کی فنی صلاحیتں بڑھانے کے لئے زرعی فنی تعلیم کی بائیس اسکیمیں شروع کی جائیں گی۔ بہت خوش کن عمل ہے بائیس کیا ہمارے ملک میں تو اگر بائیس سو اسکیمیں بھی شروع کی جائیں تو وہ بھی کم ہیں لیکن باہر حال کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ ہم اس اقدام کو سراہتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ کہا گیا ہے کہ ان بائیس اداروں کو چلانے کے لئے تین سو اکسٹھ افراد تعینات کئے جائیں گے، یہاں معاملہ تھوڑا گڑبڑ نظر آتا ہے۔ تین سو اکسٹھ افراد بائیس ادارے اس کا مطلب یہ ہے کہ فی ادارہ کم از کم سولہ افراد تعینات کئے جائیں گے۔ ان تین سو تریسٹھ افراد میں پرنسپل ، ڈپٹی ڈائریکٹرز، ایڈمنسٹریٹرز، ڈیماسٹیٹرز، فرم منیجر، انسٹرکٹرز، پلیننگ اینڈ پروگریس اوفیسرز، سینیئر انسٹرکٹرز، لائبریرین، سپرٹنڈنٹس اور دیگر عملہ شامل ہے۔
یہ جتنے بھی افراد ہیںیہ تعداد کو بڑھانے کے لئے ہی استعمال ہو رہے ہیں۔ نجی و سرکاری اداروں کی فعالیت میں فرق ہی یہ ہے کہ سرکاری ادارے میں ضرورت ہے یا نہیں افراد تعینات کئے جاتے ہیں، جہاں ایک انسٹرکٹرسے کام چلایا جا سکتا ہے وہاں منصوبہ بندی کرنے والے دوکو ترجیح دیتے ہیں مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک انسٹرکٹر غیر حاضر ہو تو اس کی جگہ دوسرا پڑھا لے لیکن آخر میں پتہ چلتا ہے کہ دونوں کے دونوں ہی غیر حاضر ہیں اور کلاس کا خدا وارث ہے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں سرکاری تعلیمی اداروں میں بالخصوص دیکھا گیا ہے کہ عمارتیں اور طلبہ ہیں لیکن اساتذہ غائب ہیں اور اگر کہیں اساتذہ، طلبہ اور عمارتیں موجود ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ تعلیم غائب ہے کیونکہ ان اساتذہ کا مقصد پرائیویٹ ٹیوشن کے ذریعے پیسے کمانا ہو جاتا ہے اور اسکول فقط ایک عمارت بن کر رہ جاتا ہے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت کا یہ قدم کسانوں کی زرعی فنی تعلیم کی سمت ایک مثبت قدم ثابت ہو گا اور اس میں افراد کو اعداد کے حوالے سے بھرتی کرنے کی بجائے ان کی خصوصیات اور ان کی کارکردگی کے حوالے سے بھرتی کیا جائے گا تاکہ ادارے کے اخراجات کنٹرول میںرہیں اور ادارہ نہ فقط ترقی کرے بلکہ اپنے تعلیمی عمل کو جاری رکھے کہیں ایسا نہ ہو کہ کچھ عرصے کے بعد یہ محسوس کیا جائے کہ چونکہ اب مونچھیں داڑھی سے بڑھ گئی ہیں لہذا داڑھی بھی صا ف کر دی جائے۔۔۔

No comments:

Post a Comment