June 20, 2011

توانائی کا بحران اور ممکنہ حل


ہمارے ملک میں ذہین افراد کی کمی نہیں صرف ذرا ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اس کا عملی مظاہرہ ہم نے ڈسکہ اور سیالکوٹ کے علاقوں میں دیکھا جہاں چند لوگوں نے پیکریٹ کے فنی ماہرین کی زیرِ نگرانی بائیوگیس سے چلنے والا انجن تیار کیا ہے جو تقریباً چار گھنٹوں تک ٹیوب ویل کو صرف دس سے بیس فیصد تک ڈیزل استعمال کر کے چلا سکتا ہے اس سے جہاں کسانوں کو خوشحالی نصیب ہو گی وہیں پر ملکی سطح پر اجناس کی لاگت پر بھی کمی آئے گی جس کا براہ ِراست فائدہ عوام کو ہی ہوگا۔
توانائی کے مددگار کے طور پر تیسرا بڑا ذریعہ جو ہم شارٹ فال کو کم کرنے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں وہ مائیکرو ہائیڈل پلانٹ کا ہے جس پر ہم توجہ دے کر کئی میگا واٹ بجلی پیدا کرسکتے ہیں اور ملک میں ہونے والی لوڈ شیڈنگ سے نجات حاصل کر سکتے ہیں ۔

کشمیر کے علاقوں میں بہنے والے ندی نالوں پر جو کہ سارا سال بہتے رہتے ہیں پر مائیکرو ہائیڈل پلانٹ جو کہ پانچ کلو واٹ سے لے کرپچاس کلو واٹ تک کے ہوتے ہیں لگاکر بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ابھی تک صرف پیکریٹ یہ پلانٹ لگا رہا ہے مگر مجموعی طور پر اس پر وہ کام نہیں ہو رہا جو ہونا چاہئے یعنی ایک گاﺅں میں چند گھروں کو اس سے بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔
اگر اس کو اجتماعی طور پر لگا دیا جائے اور پانی کے فلو کو دیکھتے ہوئے ایک ہی علاقہ میں زیادہ پلانٹ لگا دئے جائیں تو اس سے حاصل ہونے والی بجلی کو مقامی لوگوں کو دینے کے بعد بھی بچ جائے گی جو گرڈ سٹیشن کو دی جاسکتی ہے جس سے شارٹ فال کی کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے پچاس کلو واٹ کا پلانٹ لگانے کے لئے محتاط تخمینہ جو کم یا زیادہ ہو سکتا ہے وہ تقریباً نو لاکھ اور اس کا واٹر چینل بنانے کے لئے جو تخمینہ ہے وہ تقریبا ًتین لاکھ ہے جو تقریبا ًدو سو گھروں کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔
دفاعی نکتہ نظر کے تحت بڑے ڈیم نقصان دہ ہوتے ہیں اگر کسی قسم کی تخریب کاری ہو جائے یا کوئی ٹیکنیکل فالٹ آجائے پورا علاقہ اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے جس کو ٹھیک کرنے میں کچھ عرصہ درکار ہوتا ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ نئے ڈیم نہ بنائے جائیں یا پالیسی ترک کردی جائے ڈیم ضرور بننے چاہیںمگر ان کے مددگار کے طور پر مائیکرو پلانٹ کے رواج کو اپنایا جائے جو کہ دفاعی نکتہ نگاہ سے زیادہ موثر ہوتے ہیں۔
ہوائی چکیاںیا ونڈمل بھی بجلی پیدا کرنے ایک بڑاذریعہ ہیں جن کو مددگار کے طور پر لیا جا سکتا ہے یہ صرف ساحلی علاقوں پر لگائی جا سکتی ہیں جہاں پر ہوا پورا سال ایک مطلوبہ رفتار کے ساتھ چلتی رہے لہٰذا ہم ان کو گرڈ کے ساتھ تو منسلک نہیں کر سکتے مگر علاقائی طور پر ان علاقوں کو بجلی ضرور فراہم کرسکتے ہیں جو ساحلی پٹی کے قریب ہوں اور گرڈ سے آنے والی بجلی کو بچا سکتے ہیں۔
سندھ کے ساحلی علاقے اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کا بیشتر حصہ ایسا ہے جہاں پر ہوا سارا سال چلتی رہتی ہے ابھی گذشتہ دنوں حکومت نے (اے ای ڈی بی) الٹرنیٹو انرجی ڈویلپمنٹ بورڈ کے اشتراک سے چند غیر ملکی ماہرین کے ساتھ سندھ کے علاقوں میں ونڈمل لگانے کے معاہدہ جات کئے ہیں جن کو تیز کرنے کی ضرورت ہے اس سے بیشتر پاکستان کونسل آف رینیوایبل انرجی ٹیکنولوجی ان علاقوں میں ونڈمل لگا چکا ہے اور مزید بھی ان پر کام کر رہا ہے۔ ونڈ مل بھی ایک ایسا ذریعہ ہے کہ اس سے ہم اپنی بجلی میں ہونے والے شارٹ فال کو پورا کرسکتے ہیں۔
ڈیموں کا نہ بننا اور پانی کی کمی کی وجہ سے روز بروز بجلی کی پیداوار میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے جبکہ کھپت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو آنے والے وقتوں میں ایک عفریت کی شکل اختیار کرتا نظر آرہا ہے اور خدا نہ کرے کہ مستقبل قریب میں ہمارے کھیت پانی کی کمی کی وجہ سے بنجر اور انڈسٹریاں بجلی کی کمی کی وجہ سے بند ہو نا شروع ہو جائیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو بنجر کھیت اور ویران انڈسٹریا ں تحفہ میں ملیں ہمیں وہ وقت آنے سے پہلے اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا اور ان بحرانوںکا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے دوسرے ممالک پر انحصار کوکم کرنا ہوگا ۔
ہمارے ملک میں قدرت کی عطا کردہ تما م نعمتیں موجود ہیں،ذرائع بھی ہیں، تربیت یافتہ عملہ بھی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہیں کر پارہے تو اس کی وجہ بھی معاشی بدحالی ہی ہے ہماری تحقیقات کے مطابق جب تکنیکی عملہ فیلڈ میں جاتا ہے۔
توہر فرد کی کوشش ہوتی ہے کہ اُس کا نام لسٹ میں نہ آئے اور وہ دفتر میں چھپتا پھرتا ہے یا بہانے بنا کر بچنے کی کوشش کرتا ہے اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ نااہل ہے بلکہ اس کی وجہ وہ معاشی حالات ہیںجن میں وہ پھنس جاتا ہے ہم اس پہیلی کو واضع کرتے ہیں کہ فیلڈ میں ایک لیب اٹینڈنٹ جو کہ لو سکیل کا ہوتا ہے اس کی ڈیلی ایک سو بیس اورایک سو اسی روپے ہوٹل کے ہوتے ہیں۔
دفتر میں وہ آٹھ اور فیلڈ میں اٹھارہ گھنٹے کام اور چھ گھنٹے آرام کرتا ہے جن علاقوں میں وہ کام کرتے ہیں وہاں پر دال کی پلیٹ بھی پچاس روپے سے کم نہیں ہوتی اور ایک سو اسی روپے میں کمرہ یا چارپائی لینا ایک مذاق سے کم نہیں اس کے علاوہ اگر وہ بیمار ہو جائے جیسا کہ عام طور پرفیلڈ میں پانی، مچھر اور ہوٹل کی گندگی کی وجہ سے ہو جاتے ہیں تو وہ بھی ان کو اپنی جیب سے کرنا پڑے گا۔
آج کل کے دور میں تین سو روپے میں تین وقت کا کھانا اور رہائش آپ ڈھونڈ دیں ہم مان جائیں گے کہ ہمارا عملہ ہڈ حرام اور نااہل ہے اور اگر نہیں دھونڈ سکتے تو آپ مان جائیں کہ زیادتی کر رہے ہیں اپنے عملہ کے ساتھ اگر وہ ایک ہفتہ فیلڈ میں رہتا ہے تو اس کو سرکاری گرانٹ کے ساتھ اپنی آدھی تنخواہ بھی باہر خرچ کرنی پڑے گی اور اگر وہ رات کے کسی پہر اپنے شہر پہنچ جاتا ہے تو اس کو اگلے دن دفتر آنا پڑے گا یا چھٹی کی درخواست دینی پڑے گی جبکہ ایک ہفتہ وہ جو فیلڈ میں کام کرتے ہیں تو تقریبا ایک سو ارسٹھ گھنٹے بنتے ہیں جبکہ سرکاری طور پر ایک ہفتہ کادورانیہ بیالیس گھنٹے بنتے ہیں۔
آپ خود سوچئے کہ ایک ملازم اپنی تنخواہ سے بھی خرچ کرتا ہے دفتر میں رہنے والے ملازم سے ایک سو چھبیس گھنٹے کام بھی زیادہ کرتا ہے اور اُس کو ریسٹ بھی نہیں ملتا اور حاصل وصول کہ آدہی تنخواہ بھی فیلڈ میں خرچ کر آیا تو ظاہر ہے کہ وہ آئندہ فیلڈ میں جانے کی خواہش نہیں کرے گا اگر ہمیں ان لوگوں سے خاطر خواہ کام لینا ہے اور ملک کو منجدھار سے نکالنا ہے تو فیلڈ میں کام کرنے والے عملہ کے مفادات کا بھی خیال کرنا ہوگا ۔
ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ عملہ کے لوگوں کو معاشی پریشانی سے نکالئے یہ آپ کو آپ کی توقع سے بڑھ کر نتیجہ دیں گے اور وطنِ عزیزکو توانائی کے بحران سے دنوں میں نکال دیں گے۔

No comments:

Post a Comment