June 20, 2011

پاکستان میں ماہی گیری کی تاریخ


بلوچستان کی طویل ساحلی پٹی بلوچستان کے عوام کی طرح حکومتی بے اعتنائی کا شکار ہے۔ حالانکہ اس ساحلی پٹی کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر ذرا سی توجہ نہ صرف ملکی ذر مبادلہ میں اضافہ کر سکتی ہے بلکہ دفاع و سلامتی میں بھی کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ بلوچستان کی ساحلی پٹی میں بہت سے ساحل موارث زمانہ کی نظر ہو گئے۔ ہدوک، جینی سول اور بٹی دپ کسی زمانے میں بندرگاہیں تھیں لیکن آج کل ساحل سکڑ گئے ہیں اس لئے مردہ بندرگاہیں کہلاتی ہیں۔ بلوچستان کی بڑی بندرگاہوں میں سونمیانی، اورماڑہ، گوادر، جیوانی اور سیپنی قابل ذکر ہیں۔

سونمیاتی جسے یونانی جغرافیہ دانوں نے کبانہ کے نام سے یاد کیا ہے، بلوچ اسے میانی بندرگاہ کہتے ہیں۔ یہ بندرگاہ کراچی سے بذریعہ خشکی پنتالیس میل کے فاصلے پر میانی کے مشرقی ساحل پر واقع ہے۔ یہ بندرگاہ اورماڑہ سے تجارتی لحاظ سے جڑی ہوئی ہے۔ سونمیاتی سے تجارتی سامان کے علاوہ اعلی نسل کے ترکمانی و بلوچی گھوڑے اور درباری اونٹ بھی باہر بھیجے جاتے ہیں۔ سونمیانی ماہی گیروں کے لئے بھی مشہور ہے۔ یہاں سے بڑی مقدار میں مچھلی بیرون ملک بھیجی جاتی ہے، ساحل کے قریب کم گہرائی کی وجہ سے یہاں بڑے بحری جہاز لنگر انداز نہیں ہو سکتے۔
بعض جغرافیہ دانوں نے اورماڑہ کو یار کنوائی اور اس کی بندرگاہ کو وباجیرا کے نام سے یاد کیا ہے۔ یہاںسے زیادہ ترخشک مچھلیاں اور چٹائیاں باہر بھیجی جاتی ہیں جبکہ بیرون ممالک خصوصاً جاپان اور سری لنکاسے یہاں تجارتی سامان آتا ہے۔سنہ 1945ءمیں یہاں شدید زلزلے کے باعث متعدد جانیں، مچھلیاں پکڑنے کا سامان اور کشتیاں تباہ ہو گئی تھیں۔
کلمت پسنی اور ماڑہ کے درمیان ایک ہور یعنی خلیج کے کنارے واقع ہے۔ بڑے بحری جہاز یہاں لنگر انداز نہیں ہو سکتے لیکن ماہی گیر وں کی کشتیوں کے لئے یہ محفوظ ترین ٹھکانہ ہے۔ شکار کے خاص موسم میں کراچی سے براہ راستہ خشکی دوسو بیس میل کے فاصلے پر ہے اور تربت سے صرف پینتیس کلو میٹر دور واقع ہے۔ میر احمد یار خان نے پسنی کی بندرگاہ کو بین الاقوامی تجارت کے لئے کھولا اور درآمد برآمد پر کسٹم کی ایک برائے نام شرح ڈیوٹی رکھی گئی۔
اس طرح سندھ اور بلوچستان کے بڑے بڑے تاجر پشنی آکر کاروبار کرنے لگے۔ یوں یہاں سے چینی بڑی مقدار میں درآمد ہونے لگی جب کہ یہاں سے خشک مچھلی اور چٹائیاں وغیرہ ہندوستان اور کولمبو در آمد کی جانے لگیں۔ 1939ءمیں پسنی میں ایک بڑا زلزلہ آیا، سمندری موجوں نے تمام شہر کو تہہ و بالا کر دیا۔ پسنی کے بعدمغرب میں گوادر اور مینی کے درمیان شمال بندر، کیربندر، کارواٹ اور سر بند کے ساحل واقع ہے۔ راس جڑی (مینی) کے بعد چڑ آتا ہے۔
راس شمال کے بعد گوادر آتا ہے جو سینی سے ایک سو ساٹھ کلو میٹر مغرب میں واقع ہے۔گوادر ایک تاریخی حیثیت کی حامل بندرگاہ ہے۔ قیام پاکستان کے ایک سال بعد تک گوادر سلطان مستقط کے قبضے میں تھا اور پھر جب پاکستان نے گوادر کی واپسی کا مطالبہ کیا تو سلطان مستقط نے انگریزوں کی ثالثی میں یہ علاقہ پاکستان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔ کابینہ کے سیکٹری آغا عبدالحمید تھے جنہیں صدر سکندر مرزا نے گوادر کی بندرگاہ اور اس کے ملحقہ علاقوں کو حاصل کرنے کے لئے اختیار دے کر بھیجا تھا۔ چالیس کروڑ روپے دے کر یہ ساحل آٹھ ستمبر 1948ءکو حاصل کر لیا گیا۔
جیوانی کی بندرگاہ بھی ایک اہم بندرگاہ ہے۔ جیوانی 1938-39ءتک ماہی گیروں کی ایک چھوٹی بستی تھی، جسے انگریز حکومت نے خان قلات سے دائمی اجارہ پر لینے کا مطالبہ کیا لیکن بلوچستان سیاسی جماعت، قلات نیشنل پارٹی کی مخالفت پر خان نے یہ بندرگاہ برطانیہ کو اجارہ پر دینے سے انکار کر دیا۔ بلوچستان کی پٹی پرپچاس کے قریب چھوٹی بڑی بندرگاہیں ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ حکومتی بے اعتنائی کا شکار ہیں اگر ان پر ذرا سی توجہ دی جائے تو یہ سونا اگل سکتی ہیں۔
ماہی گیری کو اس وقت دنیا میں ایک اہم صنعت کا درجہ حاصل ہے۔ ماہی گیری کے ابتدائی عمل سے مچھلی کے صارف تک پہنچنے تک کم ازکم چار سطح پر ملازمین یاروزگار کے مواقع ہوتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں ایک سو پچاس ملین افراد ماہی گیری کی صنعت سے وابستہ ہیں اور ایک غیر حتمی اندازے کے مطابق ایسے خاندان کی جن کا گزارہ اسی صنعت سے ہے، مجموعی تعداد پینتالیس ملین یعنی پنتالیس کروڑ ہے اس وقت ماہی گیری پاکستان کے جی ٹی پی کا ایک فیصد ہے۔
عالمی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2004ءمیںستاون لاکھ آٹھ ہزار آٹھ سو چار میٹرک ٹن مچھلی پیدا ہوئی، جس میں پانچ لاکھ چھپن ہزار نو سو ترانوے میٹرک ٹن ماہی گیری تیرہ ہزار پانچ سو سیتیس میٹرک ٹن آبی افزائش سے حاصل کی گئی۔ اسی طرح-05 2004میں ایک سو چھپن ملین ڈالر کی مچھلی برآمد بھی ہوئی۔ پاکستانی مچھلی اور جھینگے کی بڑی مارکیٹ امریکہ، جاپان، سری لنکا، سنگاپور، ےورپی ےونین اور خلیجی رےاستیں ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ملک میں ایک فیصد روزگار ماہی گیری اور افزائش آبی حیات کی وجہ سے ہے۔ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ عالمی سطح پر مچھلی کی طلب میں ایک سو چالیس ملین ٹن سے ایک سو پچاس ملےن ٹن اضافہ ہو گا، لیکن ہمارے ہاں گزشتہ دس برس سے سالانہ دو فیصد کمی کا رجحان ہے۔
اس کے علاوہ دریاﺅں اور جھیلوں کے پانی میں آلودگی زیادہ ہوئی جس سے مچھلی کی پیداوار بھی متاثر ہوئی۔ فاٹا میں امن اور امان کے وسائل کی وجہ سے تازہ میٹھے پانی میں مچھلی کا شکار کم ہوا لیکن اس کے ساتھ ہی فش فارمنگ، شرمپ فارمنگ میں اضافہ ہوا۔

No comments:

Post a Comment