June 13, 2011

انٹرنیٹ جرائم ایک بڑا کاروبار


انٹرنیٹ سیکیورٹی فرم سائمینٹک کے مطابق انٹرنیٹ سے منسلک جرائم پیسے بنانے کا ایک بڑا ذریعہ بن چکے ہیں۔اپنی رپورٹ میں سائمینٹک نے ایسی چیزیں فروخت کرنے والی سائٹس کا حوالہ دیا ہے جہاں بینک اکاو ¿نٹس کی تفصیل اور کریڈٹ کارڈ تک فروخت کیے جاتے ہیں۔ ویب سائٹس پر حملے کرنے والا وہ سافٹ ویئر بھی فروخت ہوتا ہے جسے جرائم پیشہ افراد اپنے کاروبار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ جرائم پیشہ افراد مائی سپیس اور فیسبک جیسی قابلِ اعتبار سائٹس کو دوسروں کے کمپیوٹروں پر حملے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔پہلے یہ لوگ صرف شرارتًا کمپیوٹر پر وائرس کے حملے کرتے تھے لیکن اب انہوں نے پیسے بنانے شروع کر دیے ہیں۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب اس طرح کے حملے اربوں ڈالر کی صنعت بن چکے ہیں۔اس میں ان آن لائن ڈسکشن بورڈز کا ذکر کیا گیا ہے جن میں ممبران ایسی معلومات خریدتے اور بیچتے ہیں جس سے دوسرے کی آئڈینٹٹی تھیفٹ یا شناخت کی چوری ممکن ہو سکتی ہے۔اس طرح کی ایک سائٹ پر کچھ لوگ سو ملین ای میل اڈریسیسز سے لے کر بینک لاگ انز اور کریڈٹ کارڈز کی تفصیلات فروخت کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ ایسی کٹس بھی دستیاب ہیں جنہیں خریدنے والا بینکوں کی جعلی سائٹس بنا سکتا ہے تاکہ گاہکوں کو پھنسایا جا سکے۔انٹرنیٹ جرائم کی روک تھام کے لیے اب تمام ممالک نے کوشیشیں تیز کردی ہیں- گورنمنٹ آف پاکستان نے بھی اس سلسلے میں کچھ قابلِ اعتماد قدم اٹھائے ہیں جن میں باقاعدہ سائبر کرائم سے متعلق قانون سازی بھی شامل ہے-  انٹرنیٹ جرائم کا نشانہ بننے سے پہلے احتیاطی تدابیر اختیار کریں بلکہ اپنے کسی دوست یا عزیز کو بھی اس قسم کے جرائم میں ملوث ہونے کی صورت میں باز رکھنے کی تلقین کریں٬ یہ جرائم چھوٹی موٹی شرارتوں سے شروع ہوکر بڑے جرائم کی راہ پر ڈال سکتے ہیں-
ایف آئی اے حکام کے مطابق اس کے علاوہ پاکستان میں ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جہاں گاہک نے پٹرول ڈلوانے کے لیے پٹرول پمپ کے عملے کو اپنا کریڈٹ کارڈ دیا تو سکِمر مشین کے ذریعے کارڈ کا کوڈ (ٹریک ون،ٹو) چوری کر لیا گیا اور بعد میں عملے نے رقم کے عوض یہ کوڈ ہیکرز کے حوالے کر دیا۔ اظہر محمود نے بتایا کہ جرائم پیشہ افراد کے اس طرح کے ہتھکنڈوں کی وجہ سے غیر ملکی سیاح پاکستان آکر اپنا کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے سے کتراتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ملکی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ ملک بھی بدنام ہوتا ہے۔سائبر کرائم ونگ کے ڈائریکٹر کے بقول پاکستان میں پلاسٹک منی فراڈ کے سب سے بڑے ملزم محمد خان کو گذشتہ برس گرفتار کیا گیا جس کے قبضے سے درجنوں وائٹ کارڈز اور ان سے تیار کیے گئے جعلی کریڈٹ کارڈز برآمد کیے گئے۔ محمد خان نے بیرون ملک سے کمپیوٹر میں ماسٹرز(ایم سی ایس) کر رکھاہے۔ تادمِ تحریر عدالت نے محمد خان کو چالیس سال قید کا حکم سنایا ہے۔اس کے علاوہ گذشتہ برس ایف آئی اے نے سائبر کرائم کے سولہ کیسز رجسٹر کیے جن میں سے گیارہ کیسز جعلی کریڈٹ کارڈ کے تھے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں درجنوں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور کروڑوں روپے کی بازیابی کی گئی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس فراڈ سے بچا کس طرح جائے۔ پہلا طریقہ جس کے تحت جرائم پیشہ افراد کسی بینک کے کمپیوٹر نیٹ ورک تک رسائی حاصل کر کے اس کا ڈیٹا چوری کرتے ہیں اور ان معلومات کو اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کرنے کے بعد سادہ کارڈ یعنی وائٹ کارڈز پر کوڈنگ کر کے جعلی کریڈٹ کارڈز تیار کر لیتے ہیں اس سے ایف آئی اے حکام کے مطابق عام آدمی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ہے کیونکہ بقول ڈپٹی ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ چوہدری منظور اس کا ذمہ دار بینک ہوتا ہے اور بینک آپ کی لوٹی رقم کی ادائیگی کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ دوسری صورت جس میں لوگ اپنا کارڈ دکانوں یا پیٹرول پمپوں پر رقم کی ادائیگی کیلئے دیتے ہیں اس میں فراڈ سے بچنے کا یہ طریقہ بتایا گیا ہے کہ جب آپ دوکان یا پیٹرول پمپ پر کارڈ دیتے ہیں تو اسے اپنی آنکھوں سے اوجھل مت ہونے دیں۔ سیلز مین پر نظر رکھیں یعنی اس کارڈ کے ذریعے رقم کی ادائیگی اپنے سامنے کروائیں۔پاکستان کے علاوہ جعلی کریڈٹ کارڈ فراڈ قریباً پوری دنیا میں ہو رہا ہے۔ چھ اگست کو ایک خبر آئی کہ امریکی حکام نے ملک کے سب سے بڑے کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ فراڈ کے معاملے میں 11 افراد پر الزامات عائد کیے ہیں۔ان افراد پر 40 ملین کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ کے نمبر چرا کر انہیں دوسرے لوگوں کو فروخت کرنے کا الزام ہے۔برطانیہ، سپین، روس ،ملائیشیا اور دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں بھی اس طرح کے کیسز سامنے آتے رہتے ہیں لیکن ان ممالک کے پاس جدید سہولتیں موجود ہونے کی بنا پر وہاں کرائم ریٹ کم ہے۔تاہم پاکستان کے پاس ایسی سہولتوں کا فقدان نظر آتا جن کے ذریعے انٹرجرائم پر موثر طریقے سے قابو پایا جاسکے۔

No comments:

Post a Comment