June 13, 2011

توانائی کا بحران اور ممکنہ حل

مستقبل میں عالمی جنگوں کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ یقینا توانائی کا حصول ہوگا توانائی اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے ۔دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان بھی اس وقت توانائی کے شدید ترین بحران میں مبتلا ہے توانائی کا بحران پانی کی قلت کی وجہ سے پیدا ہورہا ہے ۔ذرائع اور زرخیزاذہان ہونے کے باوجود آج تک ہم ان سے صحیح معنوں میں کام نہ لے سکے دنیا میں ہر جگہ آنے والے وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں مگر ہمارے ہاںحکومتوں اور شخصیات کو مدِنظر رکھتے ہوئے پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں ہمارا خطہ نعمتِ خداوندی سے کم نہیں یہاں پر سورج کی روشنی پانی کی وافر فراوانی اور ذہین انسانوں کی کمی نہیں مگر ہم نے صحیح خطوط پر کام کرتے ہوئے ان سے استفادہ کرنے کی کوشش نہیں کی توانائی کے متبادل ذرائع جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کسی توانائی کا نعم البدل تو نہیں ہو سکتا مگر اس کا مددگار ضرور ہو سکتا ہے مگرہم ان پر مکمل انحصار کرنے کی بات کرتے ہیں جو سراسر غلط سمت میں جانے کی کوشش ہے ۔

اگر ہم ان ذرائع کو توانائی کے مددگار کے طور پر لینا شروع کردیں تو ہم دعوتاًکہتے ہیں کہ ہم آنے والے دور میں توانائی کے بحران پر کسی حد تک قابو پا لیں گے۔ فوٹو وولٹیک یعنی شمسی توانائی جو کہ متبادل توانائی کے ذرائع میں سب سے بڑا ذریعہ ہے بجلی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے مگر ہم نے آج تک اس پر صرف اتنی توجہ دی ہے کہ ہم اس کو شہروں میں بجلی کا نعم البدل بنا سکیں جو کہ نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے کیونکہ یہ بجلی پیدا کرنے کا سب سے مہنگا ذریعہ ہے ہم نے کبھی اس طرف توجہ نہیں دی کہ اس کو بجلی کے عام ذریعہ کا مددگار بنا سکیںاور جو شارٹ فال ہماری گرڈ کی بجلی میں آرہا ہے اس کو پورا کر سکیں اگر ہمارے اربابِ اختیار صرف اس طرف توجہ دینا شروع کردیں کہ ہم بجلی کے شارٹ فال کو کیسے پورا کریں تو وہ یقینا فوٹووولٹیک سے اس کمی کو پورا کرسکتے ہیں ہر چھوٹے بڑے شہر میں بنائے گئے گرڈ سٹیشن کے پاس ایکڑوںزمین ہوتی ہے جو کہ کسی کام نہیں آتی اگر ان پر جرمنی کی طرز پرسولر پینل لگا دیے جایئں اور ان کو سولر انرجی کے طریقہءکار کے تحت گرڈ کی بجلی سے منسلک کر دیا جائے تو کافی حد تک بجلی کی کمی پر قابو پا یا جاسکتا ہے۔ اگر ہمارے اربابِ اختیار اس طرف توجہ دیں تو بجلی کے بڑھتے ہوئے شارٹ فال پر کسی حد تک قابو پا یا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں شمسی توانائی پر سب سے بڑا ادارہ پاکستان کونسل آف رینیوایبل انرجی ٹیکنالوجی ہے جو کافی عرصہ سے کام کر رہا ہے ہماری تحقیقات کے مطابق اس ادارہ نے بلوچستان کے دور دراز کے علاقوں میں جہاں موم بتی زندگی کی نوید دیتا ہے گھروں اور مساجد میں سولر سسٹم لگاکر دیے ہیں اور اس کے علاوہ سندھ کے علاقہ میں بھی سولر سسٹم کو متعارف کرایا ہے۔ 
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ادارہ اور اس کے ملازمین کے تحفظات کا بھی خیال رکھا جائے اور ان کے قابل اور ماہر سٹاف کو سہولیات فراہم کرکے ان سے استفادہ حاصل کیا جائے ۔  توانائی کے متبادل ذرائع میں دوسرا بڑا ذریعہ بائیو گیس کا ہے ایک تحقیق کے مطابق گیس کے قدرتی ذرائع میں 2030ءتک نمایاں کمی کی شنید ہے اس لئے وقت سے پہلے کوئی حل نکال کر قدرتی گیس کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کیا جاسکتا ہے بائیوگیس ایسا ذریعہ ہے جس پر عمل درآمد کرکے نہ صرف گیس کی کمی پر قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ اس سے حاصل ہونے والی نامیاتی کھاد سے فصلوں کو بہتر اور زمین کی طاقت کو بڑھایا جاسکتا ہے ۔پا کستان جو کہ ڈیری کی مصنوعات میں دنیا کے پانچ ممالک میں ہے اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جانور کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں جن کا گوبر سود مند ہونے کی بجائے ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتا ہے دیہات میں اور شہروں کے گردونواح میں پائے جانے والے باڑوں میں جانوروں کے گوبر کو کھلے عام چھوڑ دیا جاتا ہے جس میں پائی جانے والی میتھین،نائٹروجن اور ہائیڈروجن گیسزفضا میں شامل ہو کر آلودگی کا باعث بنتی ہیں جو کہ بعض اوقات دمہ اور دوسری سانس کی بیماری کا موجب بنتی ہیں اس کے علاوہ دوسرے کیڑے مکوڑے بھی ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتے ہیں ان کو سائنسی خطوط پر استعمال کرتے ہوئے انسانی زندگی کے لئے سود مند بنایا جا سکتا ایک بائیو گیس پلانٹ لگانے کے لئے تین سے چار بھینسوں کا گوبر درکار ہو تا ہے 
جو کہ بارہ سے چودہ افراد کے کنبہ کےلئے گیس فراہم کرتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق چودہ افراد کے کنبہ کے ایندھن کا ماہانہ خرچہ تقریبا ًپانچ سے چھ ہزار تک بنتا ہے اور پلانٹ کی کل لاگت چالیس سے پچاس ہزار تک بنتی ہے جو کہ کم از کم بیس سال تک چلتا ہے اور اس میں بھی اگر ڈرم کی دیکھ بھال ہوتی رہے تو وہ زیادہ عرصہ نکال سکتا ہے یعنی ڈیڑھ سال میں پلانٹ کا خرچ نکل آتا ہے جبکہ اس سے نکلنے والی قدرتی کھاد اس کے علاوہ ہے۔ اگر کسان اس کی قیمت بھی شامل کر لے تو زیادہ سے زیادہ دس مہینے میں پلانٹ کی قیمت پوری ہو جاتی ہے اوربیماریوں سے جان بھی چھوٹ جاتی ہے اور بائیوگیس پلانٹ سے حاصل ہونے والی قدرتی کھاد نہ صرف طاقتور ہوتی ہے بلکہ کھیتوںپر حملہ آور ہونے والے کیڑوں مکوڑوںکے خلاف قوتِ مدافعت بھی بڑھاتی ہے اور کثیر زرِ مبادلہ بھی بچاتی ہے ۔http://www.technologytimes.pk/2011/06/11/%D8%AA%D9%88%D8%A7%D9%86%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D8%A8%D8%AD%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%85%D9%85%DA%A9%D9%86%DB%81-%D8%AD%D9%84/

No comments:

Post a Comment