June 20, 2011

جنگلات کی حفاظت ہمارا فرض


سائنسی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کرہ ارض پر پندرہ ملین انواع میںسے ایک ہے۔ انسان دنیا کے ان جانداروں میں سرفہرست ہے جن کی تعداد اس سیارے پر بڑھ رہی ہے۔ اس کے برعکس اکثر جانوروں اور پودوں کی آبادی میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔ انسان نے اپنی نادانی اور بے جا ترقی کے لئے اپنے علاوہ دیگر انواع کے جانداروں اور قدرتی نظام کو نقصان پہنچایا ہے۔ جنگلات کاکافی بڑا حصہ کاٹ دیا ہے، مچھلیوں کے ذخیرہ کا تین چوتھائی حصہ ختم کر ڈالا ہے، پانی کے نصف ذخائر کو آلودہ کردیا ہے اور اس قدر زیادہ زہریلی گیسیں فضاءمیں خارج کی ہیں جو زمین کو آنے والی کئی صدیوں تک گرم رکھیں گی۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں جنگلات کا کل رقبہ چار عشاریہ دو دو چار ملین ہیکٹر ہے جو پاکستان کے کل رقبے کا تقریبا ًچار عشاریہ آٹھ فیصد ہے جس میں چالیس فیصد سرکاری جب کہ ساٹھ فیصد نجی ملکیت میںہے۔ ملک میں قدرتی جنگلات کے رقبے میں ہر سال ستائیس ہزار ہیکٹر کی کمی ہو رہی ہے جو ایک نہایت تشویشناک امر ہے کیونکہ درختوں کا کٹاﺅ آلودگی میں اضافے کے ساتھ ساتھ انسانی زندگیوں اور جنگلی حیات کو بہت متاثر کررہا ہے۔
پاکستان میں جنگلات کے رقبے میں سالانہ کمی کی ایک اہم وجہ ترقیاتی منصوبوں کے تحت تعمیرات اور ملکی آبادی کے ایک بڑے حصے کا ایندھن کے لیے لکڑی پر منحصر ہونا ہے۔ سرکاری اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں سینتیس فیصد خاندانوں کا ایندھن کے لیے لکڑی پر انحصار ہے اور اگر درختوں کی کٹائی کو روکنا ہے تو ضروری ہے کہ ان خاندانوں کو ایندھن کے متبادل ذرائع فراہم کیے جائیں۔ ملک میں لکڑی کی سالانہ ضرورت تقریبا ًچار کروڑ تیس لاکھ کیوبک میٹر جب کہ پیداوار ایک کروڑ چالیس لاکھ کیوبک میٹر ہے۔ ان اعدادوشمار کے مطابق ملکی ضرورت کو سالانہ دو کروڑ نوے لاکھ کیوبک میٹر لکڑی کی کمی کا سامنا ہے جسے پورا کرنے کے لیے درخت کاٹے جاتے ہیں۔ نتیجتاً شجر کاری کے باوجود بھی گذشتہ کئی دہائیوں سے ملک میں جنگلات کا رقبہ تقریبا ًپانچ فیصد ہی ہے۔
جنگلات کو مختلف درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے، ابتدائی اور ثانوی جنگلات۔ ابتدائی جنگلات سے مراد ایسے جنگلات ہیں جہاں ابھی تک انسانی سرگرمیاں یا مداخلت شروع نہیں ہوئی۔ اسی طرح یہاں کا حیاتیاتی نظام یا ایکو سسٹم اصل حالت میں قائم ہے۔ ہر سال چھ ملین ہیکٹرز پر مشتمل ابتدائی جنگلات کٹائی کی وجہ سے تباہ ہورہے ہیں۔ اسی طرح انسانی کی سرگرمیوں کی وجہ سے ابتدائی جنگلات کے رقبے میں ہر روز کمی واقع ہورہی ہے۔ دنیا کے جنگلات کا صرف بیس فیصد بڑے علاقوں پر محیط ہے۔ ان میں مون سون یا استوائی خطے کے جنگلات، مینگرو، ساحلی اور دلدلی علاقوں کے جنگلات شامل ہیں۔ مون سون اور پت جھڑ والے جنگلات خشک اور بلند و بالا پہاڑی علاقوں میں بہتر نشوونما پاتے ہیں۔ ابتدائی جنگلات مختلف سپیشیز اور متنوع جانوروں کی پناہ گاہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ جنگلات ماحول کے گرویدہ انسانوں کو اپنے ہزاروں سال قدیم ماحول میں رہنے کی آزادی مہیا کرتے ہیں۔ ان جنگلات میں نایاب جنگلی حیات جن میں نباتات، حیوانات اور خوردبینی مخلوق شامل ہے کو ان کے قدرتی ماحول میں زندہ رکھا ہوا ہے۔
ثانوی جنگلات بین الاقوامی طور پر کل جنگلات کے ایک تہائی حصے پر مشتمل ہیں۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں قریباً پانچ سو ملین چھوٹے کسان اور فارم مالکان اپنی گزر بسر کے لئے زمینوں اور فارموں پر درخت لگاتے ہیں جن سے ان کی گزر بسر ہوتی ہے۔
درخت انسان کےلئے قدرت کا وہ حسین تحفہ ہیں جو نہ صرف زمین کے حسن میں اضافے کا باعث ہیں بلکہ ان سے انسان کو معاشی و معاشرتی فوائد بھی حاصل ہیں لہذا ان کی دیکھ بھال اور نگہداشت کےلئے موئثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ عالمی ماہرین جنگلات کی گزارشات کی روشنی میں جنگلات کے تحفظ کےلئے درج ذیل اقدامات اہم ترین نوعیت کے ہیں جن پر عمل کرکے ہم دنیا اور بالخصوص پاکستان میں جنگلات کے پھیلاﺅ کو فروغ دے سکتے ہیں۔
درخت کرہ ارض پر سب سے بڑے اور تعداد میں سب سے زیادہ پائے جانے والے جاندار ہیں۔ جو لاکھوں ہیکٹرز پر زمین کی حفاظت، پانی کے حصول کا قدرتی ذریعہ ہیں۔ درختوں کی مسلسل کٹائی کے باعث پچھلی دہائی میں ضائع کئے گئے درختوں کا متبادل حاصل کرنے کے لئے عالمی سطح پر ایک سو تیس ملین ہیکٹرز پر پودے لگانے ہونگے۔ باالفاظِ دیگر ہمیں اگلے دس سال تک سالانہ چودہ ارب درخت لگانے ہونگے تاکہ نقصان کا ازالہ ہوسکے۔ اس کے لئے ہر شخص کو سالانہ دو پودے لگانے، اگانے اور ان کی حفاظت کرنی ہوگی۔
زمین کی زرخیزی کو قائم رکھنے اور پانی کے لئے کئی ملین ہیکٹر کم درجے کے جنگلات والی زمین اور ویران علاقوں میں دوبارہ جنگلات اگانے ہونگے۔ درختوں کی شجر کاری باقی ماندہ ابتدائی جنگلات کو تحفظ دے گی جس سے ایکوسسٹم کو سہارا ملے گا۔ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے فضاءمیں اضافہ کو بھی ختم کرنے میں مدد دے گی۔
بارآنی جنگلات زمین کا صرف سات فیصد گھیرے ہوئے ہیں لیکن یہاں دنیا بھر کے جنگلات یا درختوں کی نصف تعداد پائی جاتی ہے اور یہ دنیا کی آکسیجن کا چالیس فیصد پیدا کرتے ہیں۔ ایک عام درخت سال میں تقریباً بارہ کلو گرام کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرتا ہے اور چار افراد کے کنبے کے لئے سال بھر کی آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ ایک ہیکٹر میں موجود درخت سالانہ چھ ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرتے ہیں۔
زرعی فارسٹری ماحول دوست اور زیادہ منافع بخش ہوتی ہے یہ زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتی ہے زمین بردگی سے بچاتی ہے اور کم وقت میں زیادہ نشوونما کرتی ہے۔ ایگرو فارسٹری سسٹم سے گرین ہاﺅس گیسوں کے اثرات کم ہو جاتے ہیں۔ ایگرو فارسٹری سنٹر کم پانی والے علاقوں میں پت جھڑ والے درخت لگانے کی سفارش کرتا ہے کیونکہ ان میں کم پانی کے باوجود زندہ رہنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ درخت نہ صرف کم پانی استعمال کرتے ہیںاور خشک سالی کا مقابلہ کرتے ہیں۔ درخت اپنی جڑوں کے ذریعے زمین میں مضبوطی سے جمے رہتے ہیں اور ان کی افقی جڑیں زمین کو مضبوطی سے تھامے رکھتی ہیں جس سے بارشوں کے موسم میں زمین کا کٹاﺅ نہیں ہوتا۔
کیوٹو پروٹوکول کا ایک آرٹیکل جنگلات کو قائم رکھنے ، جنگلات کی تباہی کو روکنے اور دوبارہ جنگل اگانے پر زور دیتا ہے۔ حکومت نے ۵۱۰۲ءتک جنگلات کا رقبہ چھ فیصد تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا ہے اور ان کے مطابق اٹھارھویں آئینی ترمیم کے تحت وزارت ماحولیات صوبوں کو منتقل ہونے سے منصوبے پر مزید موئثر انداز میں عمل درآمد ہو سکے گا۔

No comments:

Post a Comment