June 13, 2011

پانی کی قلت کا عالمی مسئلہ اور سنگین خدشات


ہوا اور پانی کے ایسے عطیات ہیں جن کے بغیر زندگی کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ پانی کے مسئلے پر لڑائی جھگڑے ہزاروں برس پہلے بھی اسی طرح ہوتے تھے  جس طرح آج۔ ماضی میں پانی کے سوال پر کئی جنگیں لڑی گئیں اور آج بھی اردن اور اسرائیل کے دستے پان کی تقسیم کے سوال پر ایک دوسرے پر گولیاں برساتے ہیں۔ انگریزی زبان میں حریف یا دشمن کے لیے رائیول کا لفظ مستعمل ہے۔ یہ لفظ دراصل رومن لفظ راو ¿س سے اخذ کیا گیا ہے جس کا مطلب ندی یا نالہ ہے۔ گویا رائیول وہ ہیں جو کسی ندی یا نالے کی ملکیت میں شریک ہوں اور پانی کی تقسیم کے مسئلہ پر ان میں چپقلش ہو۔ رومن پاشندوں کی طرح آج بھی انسان پانی کے مسئلے پر خون بہانے سے دریغ نہیں کرتا۔ 

آج بھی شہروں میں بلدیات کے نلکوں پر ایک بالٹی ایک گھڑا بھرنے پر سر پھٹتے ہیں اور دیہات میں کھیت کو پانی لگانے کے سوال پر گردنیں کٹتی ہیں۔پاکستان ان علاقوں میں شامل نہیں جو شدید خشک سالی کا شکار ہیں تاہم نہروں کے عظیم سلسلے کے باوجود اس کے وسیع رقبے پر کاشت کا دارو مدار بارانِ رحمت پر ہے۔ دنیا میں جو علاقے خشک سالی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہیں ان میں افریقہ کے صحرائے اعظم اور مشرقِ وسطیٰ کے ریگستانی علاقوں کے علاوہ کوریا، بچوانا لینڈ، آسٹریلیااور امریکہ کے شمالی حصے شامل ہیں۔ ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ بیس سال میں پانی کی عالمی مانگ د ±گنی ہو جائے گی۔ انسان یہ پانی کہاں سے حاصل کرے گا؟کرہ ارض کا ستر فی صد رقبہ زیر آب ہے اور زمین پر تیئس کروڑ ساٹھ لاکھ سترہ ہزار تین سو مکعب میل پانی کے ذخائر موجود ہیں۔ ایک مکعب میل میں ۱۱۰۱۱۱۷۱۴۳۰۰۰ گیلن پانی ہوتا ہے۔ ان اعداد کی روشنی میں پانی کی کمی کا خدشہ مضحکہ خیز دکھائی دیتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پانی کی متذکرہ مقدار مین سے عشاریہ ایک دو سات فی صد سمندروں میں ہے۔ سمندر کا پانی نہ تو پینے کے قابل ہوتا ہے۔ اور نہ اس سے آب پاشی ممکن ہے۔ دو فی صد برف کی شکل میں منجمد ہے اور باقی ماندہ صرف اٹھارہ فی صد دنیا والوں کے استعمال کے قابل ہے۔ لیکن انسان اس قلیل سی مقدار کے صحیح استعمال پر قادر نہیں۔ اور سیوریج اور صنعتی ضیاع کے باعث اس کے بڑے حصے کو ناقابل استعمال بناتا جا رہا ہے۔روزانہ دو سو ستر مکعب میل پانی کے بادل بنتے میں ان میں سے دو سو تیس مکعب میل پانی خشکی سے بخارات میں تبدیل ہوتا ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تودو سو دس مکعب میل پانی پھر سمندر میں جا گرتا ہے اور ستر مکعب میل بارش اولوں یا برف کی شکل میں زمین کے خشک حصوں پر گرتا ہے۔ اس میں سے بیس مکعب میل دریاو ¿ں کے راستے دوبارہ سمندر میں شامل ہو جاتاہے باقی ماندہ میں سے کچھ جذب ہو کر زیر زمین ذخائر میں شامل ہو جاتا ہے ۔جو کنوو ¿ں وغیرہ کے باعث پھر سطح زمین پر لایا جاتا ہے۔ کچھ بادل بن کر ا ±ڑ جاتا ہے اور کچھ پودوں کے عمل کی بدولت بخارات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ چکر اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ اور پانی کی مقدار میں لاکھوں کروڑوں برس سے کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی۔تاہم پانی کے استعمال میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے نہ صرف یہ کہ دنیا کی آبادی بے تحاشا بڑھ گئی ہے بلکہ انسان نے رہن سہن کے طریقے بھی بدل لیے ہیں۔
 اب گھر گھر میں باتھ ٹب، فلشڈش واشر اور واشنگ مشینیں اپنی جگہ پیدا کر رہی ہیں۔ پھر چونکہ پانی کے حصول میں ہر فرد کو محنت نہیں کرنا پڑتی اس لیے اس کی قدر و قیمت کا صحیح اندازہ نہیں رہا۔ آج کی ایک ماں اپنے بچے کی دودھ کی بوتل کو ٹھنڈا کرنے کے لیے جتنا پانی استعمال کرتی ہے دو سو سال قبل کی کوئی خاتون جو کوس بھر دور کنوئیں سے پانی بھر کر لاتی تھی اتنی مقدار پورے ہفتے میں بھی صرف نہیں کرتی تھی۔ان تمام تر فضول خرچیوں کے باوجود گھریلو استعمال میں آنے والے پانی کی مقدار کل کا صرف دس فی صد ہے پچاس فی صد زراعت پر خرچ ہوتا ہے اور چالیس فی صد صنعت پرہم کل پانی کا نصف حصہ زراعت پر خرچ کرتے ہیں لیکن اس میں سے بہت سی مقدار ضائع ہو جاتی ہے۔ ایک تو اس لیے کہ ہماری نہریں اور ،،کھالے،، وغیرہ کچے ہیں اور بہت سا پانی زمین میں جذب ہوتا رہتا ہے۔ پھر ہم بہت سی فصلوں کو ضرورت سے زیادہ پانی دیتے ہیں پانی کھیتوں میں کھڑا رہتا ہے، کچھ زیر زمین چلا جاتا ہے کچھ بخارات بن کر اڑ اجاتا ہے، اور بہت کم پودوں کو ملتا ہے۔ تجربات شاہد ہیں کہ کھیت میں جتنا زیادہ پانی کھڑا رہے گا فصل کی نشوونما اتنی ہی سست ہو گی۔ لیکن چونکہ پانی کی ،باری، عموماً ہفتے میں ایک یا دو بار ہی آتی ہے۔ اس لیے کاشت کار کھیتوں کو بہت سا پانی دیتے ہیں تاکہ اگلی باری آنے تک مٹی میں نمی رہے۔ نمی تو واقعی برقرار رہتی ہے لیکن ایک تو فصل کی نشوونما سست پڑ جاتی ہے اور دوسرے بہت سا قیمتی پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ اس خرابی کا بہترین طریقہ فصلوں پر پانی کا چھڑکاو ¿ ہے۔ یہ طریقہ اتنا مہنگا ہے کہ فی الحال عام کسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ بعض ممالک نے پانی کی نالیوں میں پٹروکیمیکلز کی تہ چڑھانے کا تجربہ کیا ہے۔ اس کی بدولت پانی کی وافر مقدار زمین میں جذب ہو کر ضائع ہونے سے بچ جاتی ہے۔بسا اوقات پانی کی زیادتی بھی پانی کے ضیاع کا باعث بنتی ہے، اس کی مثال عام طور پر ان علاقوں میں ملتی ہے۔ جہاں نہروں کے جال بچھا دئیے گئے ہیں۔
 ان علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح بتدریج بلند ہوتی رہتی ہے۔ یہ پانی اپنے ساتھ زمین کی نمکیات کو اوپر لے آتا ہے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ اس علاقے کا پانی پینے یا آبپاشی کے قابل نہیں رہتا بلکہ وسیع رقبہ بھی سیم اور تھور کی نذر ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں جہاں ایک طرف نئی نہریں کھود کر بنجر علاقوں کو زیر کاشت لایا جا رہا ہے۔ وہیں پاکستان کے دشمن نمبر ایک یعنی سیم اور تھور کے خلاف بھی جہاد جاری ہے۔پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے سیلابوں کی روک تھام بھی ضروری ہے۔ برسات کے دنوں میں جب کہ فصلوں کو پانی کی ضرورت نہیں ہوتی بارش کا بہت سا پانی دریاو ¿ں کے راستے سمندر میں جا گرتا ہے اگر اس پانی کو بند باندھ کر جمع کر لیا جائے تو یہی پانی خشک سالی کے دنوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دنیا کے تمام تر زرعی ممالک آج سیلابوں پر قابو پانے میں کوشاں ہیں۔ پانی کی قلت اب کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ پوری دنیا اور انسانیت کا مسئلہ بن گیا ہے۔http://www.technologytimes.pk/2011/06/11/%D9%BE%D8%A7%D9%86%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D9%82%D9%84%D8%AA-%DA%A9%D8%A7-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D9%85%D8%B3%D8%A6%D9%84%DB%81-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B3%D9%86%DA%AF%DB%8C%D9%86-%D8%AE%D8%AF%D8%B4/

No comments:

Post a Comment