June 13, 2011

فصلوں کی صورتحال: ایک جائزہ


فیصل آباد (نیوز ڈیسک) پاکستان میں 1995ءسے اب تک گندم کی پیدا وار سولہ عشاریہ نو ملین سے بڑھ کر چوبیس عشاریہ تین ملین ٹن تک پہنچ چکی ہے۔چاول کی پیداوار چار ملین ٹن سے سات ملین ٹن، کپاس کی پیداوار دس عشاریہ چھ ملین گانٹھ سے چودہ عشاریہ تین ملین گانٹھ کے اہداف کو چھونے لگی ہے۔ یہی صورتحال دیگر فصلات میں بھی واضح طور پر دکھائی دیتی ہے جن میں خصوصاً گنے کی پیداوار 1995ءمیں پنتالیس عشاریہ دو ملین ٹن تھی جو بڑھ کر ملین ٹن تک پہنچ چکی ہے۔ یہ اعدادوشمار زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ ایگرانومی کے زیراہتمام منعقد ہونے والے بین الاقوامی سیمینار برائے کراپ منیجمنٹ مسائل اور ان کا حل کے افتتاحی سیشن کے دوران مقررین نے بتائے۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقے اٹھارہ ہزاری میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی جانب سے کسانوں کو مہیا کئے جانے والے تصدیق شدہ بیج کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار دگنا ہو گئی ہے۔ چیئرمین شعبہ ایگرانومی پروفیسر ڈاکٹر زاہد عطاءچیمہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایگرانومی کا شعبہ پاکستان میں زرعی فصلاتی نظام کو زیادہ پیداواریت سے ہمکنار کرنے کے لئے مسلسل کوشاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپورٹ پرائس میں اضافے کے نتیجے میں ملک میں گندم کی پیداوار میں بھرپور اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ 1992ءمیں گندم کی قیمت ایک سو چوبیس روپے، 1994ءمیں ایک سو ساٹھ روپے، 1996ءمیںایک سو تہتر روپے‘ 1997ءمیں دو سو چالیس روپے‘ 2008ءمیں چھ سو پچیس روپے فی من تھی جوکہ بڑھا کر نو سو پچاس روپے کر دی گئی اور اب پاکستان نہ صرف اپنی ملکی ضروریات پوری کر سکتا ہے بلکہ گندم برآمد بھی کر سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان گندم کو ذخیرہ کرنے کے انتظامات بہتر کرے۔

No comments:

Post a Comment