February 21, 2011

چھوٹے ڈیمز کی تعمیر،2.62 ارب روپے کا غبن



اسلام آباد (ہاجرہ زیدی) چار صوبوں میں 20 چھوٹے ڈیموں کی تعمیرکے نام پر لی جانے والی 2.62 ارب روپے کی بدعنوانی کا انکشاف کیا گیا ہے۔ یہ انکشاف ترقیاتی منصوبوں کی مانیٹرنگ کرنے والے صوبائی پراجیکٹ مینجمنٹ آفس کی انسپکشن رپورٹ میں کیا گیا۔ منصوبوں کی انسپکشن 24 ستمبر2010ءسے 6 اکتوبر 2010ءکے دوران کی گئی۔ ملک میں کرپشن ہر شعبے کو دہےمک کی طرح کھوکھلا کرتی جا رہی ہے اور اس کا نقصان عوام کواٹھانا پڑتا ہے۔ کرپشن کے باعث پنجاب کاآبپاشی نظام بھی سخت متاثر ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق رقم کی ادائیگی کے باوجود ڈمیز کی تعمیر مکمل نہیں ہوئی ہے جس کی وجہ سے ڈیم کے تعمیری مقاصد بھی پورے نہیں ہوئے ۔ ڈیمز کی تعمیر کا اصل مقصد مجموعی طور پر 27 ہزار 424 ایکڑ اراضی کو سیراب کرنا تھا جبکہ ہدف کے برعکس یہ ڈیمز اس وقت کمانڈ ایریا کے 2 ہزار 4 ایکڑز اراضی کو سیراب کر رہے ہیں جو کہ 27424 ایکڑ اراضی کے ہدف کا محض 7.45 فیصد بنتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ٹیکس دہندگان کی رقم سے مکمل ہونے والے 8 ڈیمز کی تعمیر مکمل نہیں ہوئی اور ان سے کوئی زمین سیراب نہیں کی جا رہی۔ ڈیمز کے سپل وے سمیت دیگر حصوں سے پانی رستا دکھائی دیتا ہے۔ چھوٹے ڈیمز کی تعمیر میں مقررہ مقاصد کے حصول میں اس بڑی ناکامی کی دیگر وجوہات کے علاوہ مناسب ڈیزائن نہ ہونا، ناقص تعمیراتی کام اور مناسب نگرانی کا نہ ہونا ہے۔ کچھ ڈیمز تعمیر ہو چکے اور کچھ زیرتعمیر ہیں اور تعمیراتی میٹریل کے استعمال اور آبپاشی کے حوالے سے ان کی کارکردگی اس قدر ناقص اور مشکوک ہے کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مختص کردہ رقم کا بڑا حصہ سمال ڈیمز آرگنائزیشن کی اعلیٰ انتظامیہ نے غبن کر لیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان منصوبوں کے معیار پر بری طرح سمجھوتا کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ناصرف ڈیمز کے تعمیراتی کام نا مکمل ہیں بلکہ ڈیم کا ڈیزئن اور دیگر انتظامات بھی بد انتطامی کا شکار ہیں۔
دستاویزات میں بتایا گیا کہ 2006ءمیں تلکنا ڈیم اسلام آباد ڈوےژن میں 103.369 ملین روپے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا اور اس سے ایک ہزار ایکڑ اراضی سیراب ہونا تھی جبکہ یہ محض 94 ایکڑ اراضی سیراب کر رہا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ڈیم کی آبپاشی کی صلاحیت محض 9.4 فیصد ہے۔ 2006ءمیں جب ڈیم بنایا گیا، اس وقت 2200 فٹ طویل سپل وے 11.228 ملین کی لاگت سے تعمیر کئے گئے۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ رقم بہتر انداز میں خرچ نہیں کی گئی۔ رپورٹ میں ایس ڈی او کی طرف سے اس سپل وے کو کشادہ کرنے کیلئے مزید 36.7 ملین روپے مختص کرنے کے اقدام پر بھی اعتراض کیا گیا اور کہا کہ پہلے سے تعمیر شدہ سپل وے بھی جیولرجیکل اور ٹوپو گرافیکل امور کو مدنظر رکھ کر نہیں بنایا گیا۔ اس لئے اگر 36.7 ملین روپے اس مقصد کیلئے استعمال کئے گئے تو یہ بھی ضائع ہو جائیں گے۔ رپورٹ کے مطابق فتح جنگ ڈویژن میں 101.836 ملین روپے کی تعمیر سے ہونے والے جلوال ڈیم کو 2364 ایکڑ اراضی کو سیراب کرنے کیلئے بنایا گیا جبکہ اب تک کوئی بھی زرعی اراضی سیراب نہیںکی گئی۔ رپورٹ کے مطابق فتح جنگ ڈویثرن میں بھی 2006ءمیں 27.457 ملین روپے سے تعمیر کئے گئے ٹھٹھی سیداں ڈیم بھی کوئی علاقہ سیراب نہیں کر رہا جبکہ یہ 300 ایکڑ اراضی سیراب کرنے کیلئے بنایا گیا تھا۔اس لئے اس ڈیم کی کارکردگی بھی صفر ہے۔ فتح جنگ ڈویژن میں ہی 2006ءمیں 96.808 ملین کی لاگت سے ساول ڈیم بنایا گیا لیکن 930 ایکڑ کو سیراب کرنے کیلئے بنایا گیا ڈیم محض 3ایکڑز کو سیراب کر رہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی آبپاشی کارکردگی محض 0.32 فیصد ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2004ءمیں فتح جنگ ڈویژن میں دسال ڈیم بنایا گیا جس پر 26.245 ملین روپے لاگت آئی اور یہ بھی 400 ایکڑز کے بجائے محض 105 ایکڑز کو سیراب کر رہا ہے۔

No comments:

Post a Comment