February 13, 2011

جرائم کی نئی دنیا


تحریر: احمدنور
دوسری صورت جس میں لوگ اپنا کارڈ دکانوں یا پیٹرول پمپوں پر رقم کی ادائیگی کیلئے دیتے ہیں اس میں فراڈ سے بچنے کا یہ طریقہ بتایا گیا ہے کہ جب آپ دوکان یا پیٹرول پمپ پر کارڈ دیتے ہیں تو اسے اپنی آنکھوں سے اوجھل مت ہونے دیں۔ سیلز مین پر نظر رکھیں یعنی اس کارڈ کے ذریعے رقم کی ادائیگی اپنے سامنے کروائیں۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ کے مطابق کریڈٹ کاڈرز کی تعداد میں مالی سال 2006-07کے دوران چوہتر فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا تاہم مالی سال 2007-08کے دوران اس میں تقریباً نو فیصد کمی دیکھی گئی ہے اوراب پاکستان میں پندرہ لاکھ افراد کریڈٹ کارڈز استعمال کررہے ہیں۔تاہم اس کے برعکس ڈیبٹ کارڈ استعمال کرنے والوں کی تعداد پچاس لاکھ تک پہنچ چکی ہے جس میں تقریباً پچیس فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
پاکستان کے علاوہ جعلی کریڈٹ کارڈ فراڈ قریباً پوری دنیا میں ہو رہا ہے۔ چھ اگست کو ایک خبر آئی کہ امریکی حکام نے ملک کے سب سے بڑے کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ فراڈ کے معاملے میں 11 افراد پر الزامات عائد کیے ہیں۔ان افراد پر 40 ملین کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ کے نمبر چرا کر انہیں دوسرے لوگوں کو فروخت کرنے کا الزام ہے۔برطانیہ، سپین، روس ،ملائیشیا اور دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں بھی اس طرح کے کیسز سامنے آتے رہتے ہیں لیکن ان ممالک کے پاس جدید سہولتیں موجود ہونے کی بنا پر وہاں کرائم ریٹ کم ہے۔تاہم پاکستان کے پاس ایسی سہولتوں کا فقدان نظر آتا جن کے ذریعے انٹرجرائم پر موثر طریقے سے قابو پایا جاسکے۔ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے حکام نے بتایا ہے کہ پاکستان میں بڑھتے ہوئے انٹرنیٹ جرائم پر قابو پانے کے لیے ان کے محکمے کے پاس مطلوبہ سہولتیں موجود نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ اب تک سائبر کرائم کی ابتدائی جزیات ہی سیکھ سکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو غیر ملکی ایجنسیاں ان کی ٹریننگ کے لیے آتی ہیں وہ انہیں آج سے پندرہ سال پرانی معلومات فراہم کرتی ہیں جس سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ انٹرنیٹ پر ہونے والے جرائم پر قابو پانے کیلئے حکومت پاکستان نے اکتیس دسمبر 2007ءکو ’پریونشن آف ای کرائم آرڈیننس‘ نافذ کیا تھا اوراس قانون پر عملدرآمد کا اختیار ایف آئی اے کو دیا گیا تھا۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قانون میں ایف آئی اے کو لامحدود اختیارات دیے گئے ہیں جن کے غلط استعمال کا بھی خدشہ ہے۔


No comments:

Post a Comment