February 07, 2011

اندھیر نگری چوپٹ راج

بزرگوں کے محاورے میں اندھیر نگری کی راتیں سنتے آئے تھے لیکن آج کل وطن عزیز میں جاری توانائی کے بحران نے اندھیر نگری کی اصل حقیقت کھول کر سامنے رکھ دی ہے اور اب ہم صرف معنوی طور پر ہی نہیں بلکہ لفظی و لغوی اعتبار سے بھی اندھیر نگری کے باسی بن چکے ہیں۔
اندھیروں کا راج صرف ہماری روزمرہ زندگی پر ہی نہیں ہے، بلکہ ہماری عقل پر بھی اسکی گرفت بڑھتی جارہی ہے۔ ہم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان کا موجودہ نظام زندگی اندھیروں کا اسقدر عادی ہوگیا ہے کہ جب کہیں روشنی کی کوئی کرن نظر بھی آجاتی ہے تو ہم بے بقینی کے اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں۔
اندھیروں کی اس دنیا میں ہم میں سے ہر کسی کو اپنے حصے کی شمع روشن کرنا ہوگی۔ روشنی کی یہ شمعیں ہمارے بچے ہیں، ہمارا وہ مستقبل جو تاحال اندھیر نگری سے متاثر نہیں ہوا اور آنے والے دنوں میں بھی ان قندیلوں کو روشن رکھنے کیلئے ہمیں جامع منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔
عدم توجہ اور خودغرضی کی مسلسل ضربوں سے ہمارا نظام تعلیم اب اسقدر ناکارہ اور فرسودہ ہوچکا ہے کہ اب ہم روشن اذہان پیدا کرنے سے بھی قاصر ہوگئے ہیں۔ لیکن یہی وقت ہے کہ ہمیں اپنے نظام تعلیم کو اندھیروں سے نکالنا ہوگا اور علم، تحقیق و جستجو کو اپنے نظام تعلیم کا حصہ بنانا ہوگا۔ جدید عہد فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کا عہد ہے جس کی بدولت اقتصادی و صنعتی ترقی کی رفتار کو نہ فقط تیز کیا جاسکتا ہے بلکہ اسکے ذریعے ترقی کی نئی راہیں بھی متعین کی جاسکتی ہیں۔
قیام پاکستان ہی سے ہمارے ملک میں سائنسی، تکنیکی، پیشہ ورانہ اور ووکیشنل تعلیم کا معیار انتہائی دگرگوں رہا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت شرح خواندگی 16 فیصد تھی جو کہنے کہ آج بڑھ کر 50 فیصد کے قریب پہنچ گئی ہے، لیکن ان 50 فیصد میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو فقط اپنا نام لکھنا اور پڑھنا جانتے ہیں اور یہ حقیقت بھی ہم سب جانتے ہیں کہ شرح خواندگی کی جمع تفریق کیلئے اپنا نام لکھنے پڑھنے کیلئے کسی اسکول یا مدرسہ جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر ہم اپنی شرح خواندگی میں ماسٹرز اور گریجویٹس کی تعداد نکالیں تو یہ معدودے چند فیصد سے زیادہ قطعی نہیں ہے۔
دنیا بھر میں اور خود ہمارے ہی خطے میں ایسے ممالک بھی موجود ہیں جہاں ہر پڑھے لکھے فرد کیلئے کم از کم ایک شخص کو تعلیم دینا ضروری قرار دیا جاچکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایسے تمام ممالک، جن میں سری لنکا بھی شامل ہے، جہالت کے اندھیروں سے نکل کر اپنی شرح تعلیم 99 فیصد تک بڑھا چکے ہیں، کہ یہی باشعور اقوام کا شیوہ ہے۔

No comments:

Post a Comment